اس طرح تو کچھ نہیں بدلے گا۔۔ 93

ہماری جان گروی ہے

ہماری جان گروی ہے

تحریر: فرزانہ خورشید
رہن وہ چیز ہوتی ہے جو ادھار لینے والا شخص رقم کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر اپنا سامان بطور رہن رکھواتا ہے۔ گروی رکھنے والی چیز یقیناً قیمتی ہوتی ہے اور قرض لینے والے کی پوری کوشش ہوتی ہے وہ جلد از جلد رقم کی ادائیگی کرکے اپنا گروی رکھا ہوا سامان ڈوبنے سے بچا لے۔ اس کے لیے وہ انتھک محنت کرتا ہے اور اس وقت تک چین نہیں لیتا جب تک اپنی ملکیت واپس نہ لے لے۔

یہ تو اس فانی شے کی بات ہے جو کہ اس کی نظر میں انمول ہے اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتا، مگر لمحہ فکریہ ہے وہ شے جس کے مدمقابل بیش بہا جواہرات بھی بے معنی ہے وہ اللہ عزوجل کے پاس ہماری جان ہے اور ہر شخص کو فطری طور پر اپنی جان عزیزتر ہوتی ہے۔ اگر انتخاب مال اور جان میں سے کسی ایک کا کرنا ہو تو انتخاب یقیناً (جان) ہوگا ۔کیونکہ اگر کسی سے کہا جائے کہ بے تحاشا مال و دولت لے لو، بدلے میں فقط اپنی جان دے دو، تو یہ ممکن نہیں کہ وہ رضا مند ہو جائے ۔
انسان سب سے بڑا عاشق سب سے پہلے اپنے آپ کا ہے وہ خود کو اذیت تڑپ اور تکلیف میں دیکھنا پسند نہیں کرتا،یہ آرام و سکون کا متلاشی آزادی چاہتا ہے، اپنی من چاہی زندگی جینا چاہتا ہے، اسی چاہ نے اسے خود اپنے آپ سے غافل کر دیا اور وہ وقتی لذت، خوشی،مادیت کے لالچ میں خدائے نافرمانی میں مبتلا ہو کر ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے لیے اپنی جانِ وبال کا سامان تیار کر رہا ہے۔

اگر چشمِ بصیرت اور نورِعقل سے غور و فکر کیا جائے تو انسان پر اسکا مقصدِ تخلیق آشکار ہونے لگتا ہے کہ وہ کون ہے؟ اور اس کا بنانے والا اس سے کیا چاہتا ہے؟ اسے دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ِ وہ کس منزل کا مسافر ہے اور اسے جانا کہاں ہے کیا صرف پیدا ہونا اور اپنی مرضی اپنے نفس ،خواہشات کے ماتحت زندگی بسر کر کے ہی چلے جانا مقصد ہے تو پھر وجہِ تخلیق کیوں تھی؟

ہم اللہ کے لیے آئے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں اور ہمیں اپنی زندگی کے گزارے گئے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے، اللہ عزوجل قرآن حکیم کی سورہ الطور میں ارشاد فرماتا ہے ۔ترجمہ “ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے”. ہم انسان کی جان خطرے میں ہے، بے شک انسان نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اپنی زندگی اپنے خالق کے بتائے ہوئے طریقوں پر صرف کی،

اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ نعمتیں صلاحیتیں اور عقل و شعور کے لیے ہم یقیناً جوابدہ ہیں ۔خود سے محبت کا حقیقی تقاضا ہے کہ اپنے آپ سے وفا کی جائے ،اگر ہم اپنی عقل، صلاحیتوں اور محنتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کریں جو کہ مفہومِ زندگی ہے تب تو ممکن ہے ہماری جان بخش دی جائے وگرنہ اس کے برعکس معاملہ بڑا سنگین ہے کہ “دنیا “میں ہماری کمائی کے واسطے ہماری “جان” رہن ہے. وہاں اعمال کے مطابق حساب ہونا ہے، وہاں وہی کچھ کاٹا جائے گا جس کے بیچ یہاں بوئے ہوں گے۔

ہم یہاں کی بھول بُھلیوں اور رنگینیوں میں اتنا مگن ہے کہ ہمیں خطرے کی بو بھی محسوس نہیں ہورہی، وقت مختصر ہے ۔وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا جا رہا ہے ہر آنے والا دن اور رات ہماری زندگی کے ایام کو تیزی سے نگل رہا ہے ۔ ہم غلط سواری پر سوار مخالف رستے پر چل رہے ہیں ہماری منزل کوئی اور، اور ہم، کسی اور طرف ہمیشہ رہنے کی تلاش میں سرگرداں، غلط سمت میں اپنی محنتیں لٹا رہے ہی‍ں،ہمیں اپنے مقصدِ تخلیق کو سمجھنا ہوگا، خود کو اس کی نافرمانی سے بچاکر اپنی جان کو اس کے قہر و عذاب سے چھڑوانا ہوگا۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا مگر انتقام لینے والا بھی ہے۔غفلتِ بیگانگی میں ڈوبے ہمارے دل کو فکرِجان میں مشغول ہونا ہوگا تب ہی جان کی بخشش اور فلاح ممکن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں