مشرق وسطی اور بگڑتے ہوئے حالات 100

مشرق وسطی اور بگڑتے ہوئے حالات

مشرق وسطی اور بگڑتے ہوئے حالات

تحریر راجہ فرقان احمد
ایران میں 2021 ء کا آغاز قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی پہلی برسی کی تقریبات سے کیا جا رہا ہے۔ قاسم سلیمانی 11 مارچ 1957ء کو ایران کے صوبہ کرمان کے ایک گائوں قنات میں پیدا ہوئے. ان کے والد کسان تھے. ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی. جب وہ 12 سال کے ہوئے تو گاؤں چھوڑ کر شہر آگئے. حالات نے انہیں اس عمر میں مجبور کیا کہ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر کرمان شہر آئے. وہ کچھ عرصہ ایک مستری کے شاگرد بھی رہے. والد کی جانب سے زرعی قرضہ لیا گیا تھا ان پر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس قرضے کو ادا کریں. کچھ عرصے بعد کرمان واٹر اورگنائزیشن میں کنٹریکٹر بن گئے. وہ امام خمینی ؒ کو بہت پسند کرتے تھے اور اکثر رات کو ان کے خطابات سنتے. 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا. شاہ آف ایران کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے. قاسم سلیمانی بھی اس انقلاب کا حصہ بن گئے. ابتدا سے ہی اپنی بہادری اور دلیری کا لوہا منوایا.

شمالی مغرب ایران میں کرد علیحدگی پسندوں کا صفایا کیا. 80 کی دہائی میں عراق کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور41 وین ڈویژن کی کمانڈ کی. اپنی بہادری سے ایران کے کئی علاقے خالی کروائے. ترقی کی راہوں کو ہموار کرتے ہوئے 1998 میں پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ کی ذمہ داری ملی. وہ اکثر و بیشتر ایران سے باہر کے ملکوں میں سفر کرتے رہتے. شہادت سے پہلے کئی بار یہ افوائیں سامنے آئے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا.
3 جنوری 2020 کو عراق کے دارالحکومت بغداد ایئرپورٹ پر دو گاڑیوں کو امریکی راکیٹ حملوں کا نشانہ بنایا گیا. جنرل سلمانی بغداد ایئرپورٹ اترتے ہی امریکی فوج کی جانب سے راکٹ حملے کرکے نشانہ بنایا گیا. اس حملے میں جنرل سلیمانی کے علاوہ ایران کے پاپولر موبلائزیشن فورس کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندیاں بھی جان بحق ہوئے. ایران میں جنرل قاسم سلیمانی ایک ہیرو تھے. ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے انہیں زندہ شہید قرار دیا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں ایک ماہر فوجی حکمت کار کے طور پر بہت نام کمایا۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ اگلے الیکشن میں صدارتی امیدوار کی پوزیشن میں تھے. ایران نے امریکی کارروائی پر سخت جواب دینے کا اعلان کردیا ہے اور سرخ رنگ کی علامت انتقام کا جھنڈا بھی لہرا دیا ہے.
اب ذرا یہ سوال اٹھتا ہے کہ قاسم سلیمانی کو امریکہ کی جانب سے نیوٹرلائز کیوں کیا گیا. اس سوال کا جواب بھی مشرق وسطی میں ہی چھپا ہے. قاسم سلیمانی القدس فورس کے کمانڈر تھے. اس فورس کا کام بیرونی دنیا میں کاروائی اور ایرانی مفادات کی حفاظت کرنا ہے اور قاسم سلیمانی صرف اور صرف ایرانی سپریم لیڈر کو جواب دیتے تھے. مشرق وسطیٰ میں اس وقت دو طرح کے گروپ یا بلاک موجود ہیں.
اگر ہم مذہبی لحاظ سے بات کریں تو شیعہ سنی کے دو الگ بلاک موجود ہیں. جس میں شیعہ فرقے کی ایران اور سنی فرقے کی سعودی عرب قیادت کر رہا ہے.

دوسری جانب ایران کی حمایت رشیا, چائنا سمیت کئی شیعہ ریاستی کر رہی ہیں جبکہ سعودی عرب کی حمایت امریکہ سمیت نیٹو ممالک کر رہے ہیں. قاسم سلیمانی کو پروکسی بنانے کا ماہر بھی کہا جاتا ہے جہاں ایرانی مفادات خطرے میں لگے انہوں نے اپنی پوری طاقت سے ایرانی مفادات کی حفاظت کی چاہے وہ شام میں ہو یا عراق میں, یمن میں ہو یا فلسطین میں, سعودی-امریکا کے خلاف جہاں جہاں ایران کا نام آیا یہ صفحہ اول میں کھڑے تھے. شام میں حکومت کے خلاف سخت محاذ کھولا گیا ہے لیکن ایران کی جانب سے شامی حکومت کا مکمل ساتھ دیا گیا اور دوسری طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی. یمن میں بھی ہوتی باغیوں نے غلبہ پایا ہوا ہے اور سرکاری حکومت جو سعودیہ سے چل رہی ہے اسے بھی بستگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو آنکھیں دکھانے والا صرف ایران ہی ہے.عراق میں بھی جس طرح داعش کا مقابلہ کیا گیا اور عراق سے نکالا اس میں بھی قاسم سلیمانی کا بہت بڑا کردار ہے.عالمی سیاست بہت پیچیدہ ہے کوئی بھی کبھی بھی کسی کا دوست دشمن بن سکتا ہے. امریکہ اور ایران تعلقات میں شدید کشیدگی ہے لیکن عملی طور پر مشرقی وسطیٰ میں ہی ہے. قدس فورس کی جانب سے افغانستان میں امریکی مفادات کے حق میں کارروائی بھی کی گئی. ایک بیان یہ بھی ہے کہ اگر امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے تو اگلا ٹھکانہ ایران ہوگا اور ایران بھی چاہتا ہے کہ امریکی طالبان مذاکرات تعطل کا شکار رہے.
عراق میں صدام حسین کی حکومت تک ایران کی اندرونی مداخلت بہت کم تھی. ایران کی جانب سے وہاں پراکسی بنائی اور اپنی جڑوں کو مضبوط کیا. امریکی حملے میں ابو مہدی المہندیاںبھی ہلاک ہوئے. یہ وہی شخص ہے جو كتائب حزب الله کے انچارج ہے. یہ 2006 میں بنی تھی اور اس کا کام بھی ایران کے مفادات کی حفاظت کرنا تھا. اس تنظیم کے تمام فیصلے اور آپریشن کا فیصلہ قاسم سلیمانی کرتے تھے.
دوسری جانب امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا آئل ریفائنری پر حملہ اور بند ہونا ہے. 2018 میں سعودیہ کی آرامکو آئل ریفائنری میں حملہ ہوا.

یہ دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری ہے. اس حملے سے خصوصی طور پر مغرب کو کافی نقصان پہنچا. دنیا کی دوسری بڑی آئل ریفائنری ناصریہ عراق میں موجود ہے ایران میں جاری احتجاج کے باعث عوام نے اس آئل ریفائنری کو زبردستی بند کروا دیا. جس سے سٹریٹجکلی امریکہ کو بہت بڑا نقصان ہوا. مشرق وسطیٰ میں ایک اور ہلچل بھی مچل رہی ہے ترکی نے لیبیا میں فوج بھیجنے کا اعلان کردیا ہے اس کے پیچھے بھی تیل ہے.
لیبیا میں دو گروپوں میں تصادم جاری ہے جس میں سے ایک گروپ کی حکومت کو اقوام متحدہ نے مان لیا ہے جبکہ ملک میں سول وار چل رہی ہے. دنیا کی تیسری بڑی آئل ریفائنری زویا لیبیا میں موجود ہے اور سول وار کی وجہ سے وہ بھی تقریبا بند ہو رہی ہے. ان تمام تر کاروائیوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ سمجھا جاتا ہے جب کہ قاسم سلیمانی ان تمام واقعات کی قیادت کر رہے تھے. جب بھی امریکہ کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا انھوں نے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی اور اس بار قاسم سلیمانی ان کا نشانہ بنے. امریکہ نے بڑاخطرہ مول لیا ہے. ایران جنگ کی طرف جانے سے گریز کرے گا مگر ایران بدلہ لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں