سیاست کی بند گلی سے نکلنے کا راستہ !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پی ڈی ایم نے بڑے جوش وجذبے سے حکومت مخالف تحریک کا آغاز تو کیا،مگر اس میں اب اعتماد کا فقدان دکھائی دینے لگاہے، پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ نواز شریف کی واپسی سے مشروط کر دیا ہے،جبکہ31 دسمبر آئی اور استعفوں کے بغیر ہی چلی گئی، اب 31جنوری بھی آئے گی اور چلی جائے گی، پی ڈی ایم کی جانب سے استعفے ہوں گے نہ حکومت کہیں جائے گی ،حکومت کا کہنا ہے کہ ہم سیاسی عمل کے قائل ہیں، ہمیں آئین کی پاسداری کرنی ہے پارلیمینٹ کے فورم پر آیئے، ہم بات کر سکتے ہیں،جبکہ اپوزیشن مذاکرات سے انکاری ہے ،پی ڈی ایم قیادت کا سارا زور حکومت کی بجائے مقتدر اداروں پر ہے
اس بات سے واضح ہے کہ وزیراعظم عمران خان 31جنوری تک مستعفی ہوں گے ،نہ پی ڈی ایم احتجاج سے دست بردار ہو گی،جبکہ وفاقی وزیر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن قیادت کے چہرے بتا ر ہے ہیں کہ اجلاس بے نتیجہ ہو رہے ہیں، اس سارے عمل میں پیپلزپارٹی اصل کھلاڑی ہے،جبکہ مولانا کی سیاست عملی طور پر ختم ہو چکی ہے، پی ڈی ایم کی پوری مہم میں رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا،اِس لئے قسطوں میں باتیں کر رہے ہیں،
پی ڈی ایم کی پارٹیوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں اور بغاوت بھی ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو بھی استعفوں کے معاملے پر خفت اٹھانا پڑی ہے، یہ سب ہارے ہوئے لوگوں کا اکٹھ تھا، اُن کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے۔اس میں شک نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کاتصادم ملک و جمہوریت کے نفاد میں نہیں ،اس کے باوجود دونوں ہی مکالمہ کی بجائے مزاحمتی سیاست کی راہ پر گامزن ہیں۔پی ڈی ایم نے اپنے سربراہی اجلاس کے بعد ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور سینیٹ الیکشن کے بارے میں بعد میں فیصلہ کرنے کے اعلان کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کو ایک بار پھر قطعی خارج از امکان قرار دیا ہے،
جبکہ دوسری جانب وزیراعظم اپنے سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزامات کو دُہرانے اور این آر او نہ دینے کے عزم کا اعادہ کرنے کے علاوہ اپنی حکومت اور فوج کے خلاف ایسی سازش میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگار ہے ہیں ، وزیراعظم کے سنگین الزامات اور پی ڈی ایم کی جانب سے ٹریک ٹو مذاکرات کی حالیہ کوششوں کو مسترد کردیے جانے سے واضح ہے کہ سیاسی کشیدگی اس انتہا تک جا پہنچی ہے کہ جہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم سے اختلافات کا تصفیہ کرنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے،اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کو گرانے کیلئے آخری حدود بھی عبور کرنے کا تحیہ کرچکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے تازہ فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے تمام ارکانِ اسمبلی کے استعفے پارٹی سربراہوں کے پاس آچکے ہیں اور وزیراعظم کے پاس مستعفی ہونے کے لئے بس 31جنوری تک کی مہلت ہے ،اگر وہ مستعفی نہ ہوئے تو لانگ مارچ ہو گا۔مولا نا کے بیان میں سب سے زیادہ چونکا دینے والے الفاظ یہ تھے کہ ہم ملکی اسٹیبلشمنٹ کو انتخابی دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آبا یا راولپنڈی کی طرف کیا جائے،ملک کو ایک ڈیپ اسٹیٹ بنا کر یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے پورے نظام کو یرغمال بنارکھا ہے،
عمران خان ایک مہرہ ہیں جن کے لئے انتخابات میں دھاندلی کی گئی، ان کو قوم پر مسلط کیا گیا اور ایک جھوٹی حکومت قائم کی گئی ہے، ہماری تنقید کا رُخ برملا اُن کی طرف ہوگا اور اب ان کو سوچنا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر اپنے پنجے گاڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اس سے دستبردار ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم نے اپنے موقف کا اظہار کیا کہ یہ لوگ ثبوت دیں کہ فوج کس معاملے میں میری پشت پناہی کر رہی ہے، کوئی ایک معاملہ بتائیں
جس میں فوج نے حدود سے تجاوز کیا ہو، فوج وہی کرے گی جو ریاست کہے گی، حیرت ہو رہی ہے کہ یہ فوج سے کیا چاہتے ہیں۔
ایک طرف اپوزیشن مطالبہ کر رہی ہے کہ اسٹیبشلمنٹ اور طاقتور حلقے جمہوری عمل میں مداخلت بند کر دیںتووسری طرف انہی حلقوں سے یہ مطالبہ بھی کر تے ہیںکہ وہ کٹھ پتلی وزیراعظم کو گھر بھیجیں، بیک وقت دوکام کیسے ممکن ہیں، آئین میں تو ایسی کسی صورت حال کی گنجائش نہیں،
کہیں یہ نہیں لکھا کہ لانگ ماچ ہو گا تو حکومت ختم ہو جائے گی۔ کوئی مقتدر قوت کہے گی تو وزیراعظم مستعفی ہو جائے گا۔ فوج کے سربراہ سے توقع رکھی جا سکے گی کہ وہ جمہوری عمل کو اپنی چھڑی سے اِدھر اُدھر کر سکے،آئین تو واضح طور پر حکومت کی برطرفی کا ایک راستہ بتاتا ہے، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کی برخواستگی کی راہ دکھاتا ہے، پی ڈی ایم کو ایسے کسی آئینی راستے سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ تحریک اس نکتے پر چلا رہی ہے کہ آئین کی بالادستی قائم کی جائے، مگر ریلیف ماورائے آئین مانگ رہی ہے،یہ تو بند گلی کا راستہ ہے
اور بند گلی میں جب بھی جمہوی حکومت پھنسی ہے کوئی نہ کوئی سانحہ ہوا ہے۔ آج خود اپوزیشن نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ کل کلاں کسی غیر جمہوری عمل کے ذریعے جمہوریت ڈی ر یل ہوتی ہے تو وہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکے گی، حکومت اور اپوزیشن کا پارلیمان میں مل بیٹھ کر باہمی اتفاق رائے ہی روز افزوں سیاسی کشیدگی کے خاتمے اور ملک کو بند گلی سے نکالنے کا واحد راستہ ہے،اس اتفاق رائے کا راستہ اختیار کر کے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچیا جاسکتا ہے ،مگر فی الوقت تو اس نکتے پر سوچنے کی کسی کے پاس فرصت تک نہیں ہے۔