"سسک رہی ایسے کشمیر کی یہ وادی" 128

کیا پاکستان کا کوئی ادارہ شفاف ہے؟؟؟

کیا پاکستان کا کوئی ادارہ شفاف ہے؟؟؟

از کومل شہزادی،سیالکوٹ
کرپشن کا لفظ لاطینی لفظ Corruptusسے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے توڑنا-معاشرے کو اندرونی طور پر توڑنا کرپشن ہے -قیامٍ پاکستان سے لے کر اب تک ستر برس کے دوران ہمارے ہاں کرپشن کی شرح اورضخامت بڑھتی ہی چلی گئی ہے -کرپشن کے اس کینسر نے ہمارے معاشرے کو مکمل طور پر اپاہج اور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے -وطن عزیز میں کرپشن کا طول وعرض ماپنا ممکن نہیں ہے -حکمرانوں کی حرص وہوس کاڈسا پاکستان آج کرپشن کی گہری دلدل میں دھنس چکا ہے اور بہت بڑے بڑے سرکاری عہدے دار کرپشن کو اپنا طرز حیات Way of living بنا چکے ہیں -پاکستان کے ادارے کتنے شفاف ہیں اس پر اگر میں لکھنا شروع کروں تو پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے

لیکن میں ادھر محض ایک ادارے پر بات کرنا چاہوں گی کہ کہا جاتا تھا کہ سروس کمیشن کا ادارہ شفاف ہے اس میں کسی قسم کی کرپشن نہیں کی جاتی لیکن حال ہی میں ہونے والے مقابلہ جاتی امتحانات جس طرح پیپر بیچے گئے اور جیسے اس ادارے کے شفاف ہونے کی دھجیاں اڑائیں گئیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے -پنجاب پبلک سروس کمیشن ایک ایسا ادارہ تھا جس پر لوگوں کو اعتماد تھا کہ باقی تمام ھی اداروں میں سفارش چلتی ہے یہاں غریبوں کے بچوں کی ایک امید بندھی ہوتی تھی وہ بھی ختم ہوگئی کیونکہ جب سے نیا پاکستان بن رہا ہے کرپشن بھت زیادہ پھل پھول چکی ہے

اور ریٹ بھی بڑھ گئے ہیں۔اور کسی کو مانگتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔پنجاب پبلک سروس کمیشن کی حالیہ کرپشن سے بھر پور فلم ریلیز ہو گئی ہے جس میں یہ مقدس گائے بھی باقی اداروں سے پیچھے نہ رہی عرض اتنی سی ہے کہ اس مشکوک سرگرمیوں کے بعد کیوں نہ ppsc کے ذریعے ہونے والی 1990 تک کی بھرتیوں کا ڈیٹا چیک کیا جائے قوی امکان ہے سابقہ بھر تیوں میں بھی یہی گل کھلےہو ں گے

بہت سے دانشور جو یا تو سفارش ،چمک اور کئی بیچارے رو کے سلیکٹ ہوئے ہوں گے جو آج کل بچوں کو ہدایات دیتے ہو ئے زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں کہ کیسے اس ادارے کے ذریعے آئےتھے خود کو عقل کل کہتے پھرتے ہیں ہم ppsc کے ذریعے آئے ہیں جی آپ اسی ادارے کے ذریعے سلیکٹ ہوئے جس کا پیپر پانچ سےسات لاکھ میں بکتا ہے-اس ملک کا نظام انصاف مردہ اور بے ضمیر لوگوں کے ہاتھوں میں ہے -چیرمین صاحب کا تعلق عسکری پاکستان سے ہے جو رات کو جاگ جاگ کر پیپر بیچتے ہیں تو طلبا رات کو آرام سے سو کہ پی پی ایس سی کلیئر کرتے ہیں اور کچھ دن پہلے تک موصوف کے مطابق پی پی ایس سی ایک مقدس گائے ہے جس کی شفافیت پر سوال اٹھانا غداری کے برابر ہے

-گزشتہ ہفتے چیرمین صاحب نے طلبا کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا-پیپر لیک ہوئے ہزاروں۔نوکریاں فروخت ہوئی لاکھوں۔لوگ تباہ ہوئے کروڑوں۔اور قصوروار صرف 4 چھوٹے ملازمین۔؟؟؟یاد رہے2020 نوکریاں بیچنے کا سال تھا-اداروں کی بہت بڑی نالائقی ھے اس وقت اداروں میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں-سروس کمیشن ایک انتہائی اہم ادارہ ہے اور اسی ادارے سے ہماری گورنمنٹ کی مشینری تعینات ہوکر آتی ہے لیکن یہ ادارہ خود اب زنگ آلود ہوگیا ہے -حال ہی میں نہیں بلکہ پچھلےادوار میں ہمیشہ سے اس ادارے اور اسکے چیرمین ممبران اور سیکرٹری پر کرپشن و نااہلی کے الزامات لگ چکے ہیں –
کتنے المیے اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے کے ہر فرد کا ہاتھ دوسرے کی جیب میں ہے -چاروں طرف اگر نگاہ دوڑا لیجیے آپ کو ہر طرف کرپشن اور بدعنوانی کی خوفناک اور بھیانک مثالیں واضح دکھائی دیں گی -کمیشن کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ہی کرپشن نہیں بلکہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے-ایجوکیشن کا کوئی بھی ادارہ دیکھ لیں کیا وہ شفاف ہے؟کیا اُدھر میرٹ کی دھجیاں نہیں اڑائیں جاتیں ؟؟؟کیا

پورا نظام ایمانداری اور میرٹ پر مبنی ہوتا ہے ؟؟؟کیا میڈیکل کالجز کہ انٹری ٹیسٹ بھاری قیمتوں میں فروخت نہیں کیے جاتے ؟؟؟کیا ایم .فل اور پی ایچ ڈی کےانٹری امتحانات میں میرٹ کی دھجیاں نہیں اڑائیں جاتیں ؟؟؟میرٹ کو یا ریفرنس کو ترجیح دی جاتی ہے ان سب سے وہ سب ہی واقف ہیں جو ایسے اداروں سے منسلک ہیں – یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے -لیکن بہت سے لوگ بس خاموش تماشائی بنے ہیں -یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے لے کر نچلے درجے کے اہل کار تک بہت سے کرپٹ افراد اس میں ملوث پاۓ جاتے ہیں -بقول شاعر:

جنگل میں سانپ شہر میں بستے ہیں آدمیسانپوں سے بچ کر آئیں تو ڈستے ہیں آدمی..سانپ سے نہ دے آدمی کی مثال سانپ کچھ بے ضرر بھی ہوتے ہیںکرپشن کی موجودگی نے ملک اور معاشرے کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں -جس میں ہمیشہ متوسط طبقہ پستا ہے -پاکستان کا ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے – جدھر ہر چیز پیسے سے باآسانی حاصل کی جاسکے اور ہر کوئی پیسے کی بھاگ دوڑ میں لگا ہو-
وہاں ادارے کیسے شفاف رہ سکتے ہیں – میرے ذہن میں اکثر ایسے سوالات آتے ہیں کہ ایسا ملک جدھر ایک عام سی بات کے لیے لوگ اپنا ضمیر تک بیچ دیتے ہیں

وہ چاہے کوئی بھی ادارہ ہو -اُس ملک میں کیسے پھر کچھ شفاف رہ سکتا ہے -میں اپنی آنکھوں سے ایسے بہت سے واقعات دیکھ چکی ہوں کہ کس طرح ریفرنس کی بنیاد پر حق دار کا حق مارا جاتا ہے -جدھر اتنے بڑے ادارے ملوث ہوں میرٹ کو تہس نہس کرنے میں وہاں چھوٹے ادارے کدھر پیچھے رہتے ہیں – بانی پاکستان قائداعظم کے بہت سے بیانات اور تقاریر میں کرپشن کے ذریعے سے حاصل کی گئی دولت کو ریاست کے لیے زہر قاتل قرار دیا گیا ہے -مولانا ابو الکلام آزاد کہا کرتے تھے کہ تاریخ کی بڑی بڑی غلطیاں جنگ کے میدانوں اور انصاف کے ایوانوں میں ہوا کرتی ہیں

ہمارے خیال میں جنگ کے میدانوں میں ہونے والی غلطیوں سے اجتناب شائد ممکن نہ ہو لیکن انصاف کے ایوانوں میں غلطیوں سے قانون کی حکمرانی کے ذریعے محفوظ رہا جاسکتا ہے -اینٹی کرپشن کی کاروائی سے ملزمان گرفتار تو ہوۓ -جس سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہ کئی سالوں سے میرٹ سے ہٹ کر من پسند لوگوں کو بھرتی کررہے ہیں -جس میں بڑے آفیسرز بھی ملوث ہیں – لاہور ہائی کورٹ میں تمام بھرتیوں کو کینسل کرنے کی رٹ دائر کردی گئی ہے – تمام محکمے کے ٹیسٹ و انٹرویو یعنی بھرتیاں ہی ختم کردیں گئیں -کیا اس سے ادارہ شفاف ہوسکے گا ؟؟کیا

گارنٹی کے دوبارہ ایسا نہیں ہوگا ؟؟لیکن کیااس سے اس ادارے کو شفاف بنایا جاسکے گا-ہمارے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے پہلی تقریر میں جہاں بہت سی اچھی باتیں کی ہیں وہاں کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے کا اعلان کیا،
بہت خوش آئند بات ہے لیکن سوال ہنوز است کہ کیا ان جیسے لوگوں کی موجودگی میں کرپشن کے جن پر قابو کیا جا سکتا ہے……؟؟؟
گردن تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگ بھلا کیسے اس ناسور کو ختم کریں گے…….؟الامان الحفیظ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں