’’تاریخ ساز شخصیت سیٹھ عابد ‘‘ 92

چھوٹا کپتان

چھوٹا کپتان

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
24 سال کا عرصہ بیت گیا لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے کل کی بات ہے، یہ راقم کی صحافت کے حرف ابجد سے آگاہی کے ابتدائی سال تھے، 1996ء میں جب سرگودھا ڈویژن کے ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے شہرہ افاق کرکٹر عمران خان نے ملک میں نئی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ابتدائی دنوں میں سرگودھا شہر میں اسکا کوئی نام لیوا نہ تھا، تبدیلی کے نام پر بننے والی نئی جماعت کو وجود میں آئے چند دن ہی گزرے تھے کہ عمران خان اور پارٹی منشور سے متاثر دبلا پتلا خوبصورت اور بالوں کا منفرد سٹائل رکھنے والا متوسط گھرانے کا نوجوان ہاتھ میں پی ٹی آئی کا پرچم لہرائے سرگودھا کے بازاروں میں نظر آنے لگا تو اس وقت ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا عروج تھا، شہر کے لوگ نوجوان رائو راحت علی خان کا مذاق اڑاتے اور اس سے طرح طرح کے سوال کرتے

تو نیا کھلاڑی ہر سوال کا جواب مفصل تشریح کر کے پی ٹی آئی اور کپتان پر ختم کر دیتا، اور پھر مسکرا کر سوال کرنے والے شخص کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دے کر اپنی راہ ہو لیتا کیونکہ وہ تو ’’نیا پاکستان‘‘ کے قیام کی تعبیر کو پانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا، اس کے عزم، ارادے اور حوصلہ میں کہیں بھی لرزش نہ تھی، وہ تو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کیلئے کپتان کا دیوانہ ہو چکا تھا۔ وہ محنت کرتا گیا، آگے بڑھتا گیا اس طرح سرگودھا میں پی ٹی آئی کی بنیاد ڈل گئی جس کا سہرا اس دبلے، پتلے نوجوان کے سر تھا، پی ٹی آئی، نیا پاکستان،

اور کپتان کے حوالے سے ہمہ وقت اس نے شہر کے عوام کو پر اثر دلائل سے پارٹی میں شامل کیا تو کپتان عمران خان نے اسے (رائو راحت علی خان) کو پارٹی کا پہلا کوارڈی نیٹر سٹی سرگودھا نامزد کیا، وہ پارٹی میں کبھی عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگا، بلکہ اس کی بے مثال کارکردگی، محنت کی بدولت پارٹی قیادت اور کپتان اسے خود عہدوں سے نوازتے رہے، اور وہ 1996ء سے تا دم تحریر پارٹی میں کسی نہ کسی عہدے پر فائز رہا، وہ سیکرٹری انفارمیشن نارتھ پنجاب، ممبر نیشنل کونسل، ممبر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی، مرکزی سیکرٹری پبلسٹی، ممبر آئینی کمیٹی،

ممبر پی ٹی آئی ریویو آئینی کمیٹی سمیت دیگر عہدوں پر کام کرتا رہا، اس نے 1996ء سے 2018ء تک سرگودھا میں پی ٹی آئی کارکنوں کیلئے آکسیجن کا کام کیا اور پھر وہی ہوا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے، پی ٹی آئی شہر اور ملک میں مضبوط ہو گئی، اقتدار کی منزل نظر آئی تو کچھ ہوائیں ایسی چلیں کہ بہت سے سیاسی کھلاڑی پینترا بدل کر پی ٹی آئی کے منڈیر پر آ بیٹھے، ان میں وہی جاگیر دار، سرمایہ دار، وڈیرے اکثریت میں شامل تھے جو ہر اقتدار کے چڑھتے سورج کو پوجا کرتے آئے ہیں اور نئی پارٹی میں آ کر پرانے کارکنوں کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، کیونکہ کہتے ہیں نا ’’پیسہ بولتا ہے‘‘۔ اس نے 2018ء کے الیکشن میں پارٹی سے پی پی 77 سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے ٹکٹ کیلئے رجوع کیا

لیکن ٹکٹ سرمایہ دار لے گیا، جس کا نتیجہ پارٹی قیادت نے انتخابی نتائج کی صورت میں دیکھا۔ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو ملک بھر کی طرح اس ضلع میں بھی کرسیاں جن کا حق تھیں انہیں نہ ملیں، اور ان پر براجمان کوئی اور لوگ ہو گئے جو اڈاری مار کر دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، مگر اس کے باوجود رائو راحت علی خان نے نہ کسی سے شکوہ کیا اور نہ سیاسی پلٹا بازوں کی طرح پارٹی سے رخ موڑا بلکہ اس کا عزم، حوصلہ، جنون تو اور مضبوط ہو گیا، وہ پہلے سے بڑھ کر پارٹی کیلئے کام کرنے لگا۔ اس نے کارکنوں سے رابطہ، رشتہ مزید مضبوط کر لیا، اسی لئے تو پی ٹی آئی ورکرز نے اسے ’’چھوٹا کپتان‘‘ کا لقب دے رکھا ہے اور وہ اس لقب کو اپنے لئے فخر تصور کرتا ہے

وہ کپتان کے کھلاڑی کی حیثیت سے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کیلئے پر عزم ہے وہ چاہتا ہے کہ اس شہر اور ملک کے بچے اعلی تعلیم سرکاری سطح پر حاصل کریں، غریب کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہو تا کہ وہ سسک سسک کر نہ مریں، وہ چاہتا ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو، تب جا کر بنے گا؟ نیا پاکستان۔
سنا ہے کہ اب چونکہ سینیٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور وہ (رائو راحت علی خان) بھی پی ٹی آئی کپتان سے بطور پارٹی ورکر سینیٹ کے ٹکٹ کیلئے رجوع کرے گا، دوسری طرف سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیر دار دولت کے بل بوتے پر ٹکٹ کے امیدوار نظر آ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کپتان عمران خان سرگودھا ڈویژن میں موٹر سائیکل سوار کارکن کو ٹکٹ دے کر کارکنوں کے دلوں میں اترتے ہیں یا کہ ماضی میں دوسری جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیر داروں میں سے کسی کو سینیٹ الیکشن میں سینیٹر کیلئے ٹکٹ دے کر نوازتی ہے۔

چونکہ کپتان نے پارٹی کی بنیاد رکھنے سے اقتدار میں آنے تک ہر مقام پر کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر نچلے اور متوسط طبقہ کے پارٹی کارکنوں کو اقتدار میں حصہ دار بنائیں گے، اور وڈیرہ ازم اور موروثی سیاست کا خاتمہ کریں گے، تب جا کر ملک ترقی کرے گا اور قوم خوشحال ہو گی۔ اسی تناظر میں سرگودھا کے پی ٹی آئی کے کارکنان کی نظریں اس بابت کپتان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ پارٹی ورکر کو ٹکٹ دیتے ہیں یا سرمایہ دار وڈیرہ ازم کو سیاست میں پروان چڑھاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں