تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 121

سیاسی تصادم میں غیر جمہوری رویئے !

سیاسی تصادم میں غیر جمہوری رویئے !

تحریر؛شاہد ندیم احمد
حکومت اور اپوزیشن کے مابین لفظوں کی گولہ باری جاری ہے،ایک طرف پی ڈی ایم کے قائدین اور دوسری طرف حکومتی وزیر مشیروں کا لشکر ہے، یہ بیان بازی کی گولہ باری تب تک جاری رہے گی ،جب تک کہ دونوں کی چھٹی نہیں ہو جائے گی ۔مولانا فضل الرحمن کے بقول اسلام آباد کا قبضہ ختم کروانے تک جہادجاری رہے گا،جبکہ فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ یہ جہاد نہیں، لوٹ مار کے تحفظ کی تحریک ہے ،مولانا اپنی اور ساتھیوں کی کرپشن چھپانے کے لئے شہر در شہر گھوم رہے ہیں۔عوام کیلئے عداوتوں اورنفرت سے بھری سیاست بوجھ بنتی جارہی ہے،

کیو نکہ حکومت یا اپوزیشن کوئی بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ رعوام کیلئے وزمرہ کے بڑھتے مسائل دن بدن گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔حزب اختلاف پر وار یاجوابی وار حکومت کی غذا ہوتی ہے، مگر حکومت کی ذمہ داریاںعوامی مسائل بھی ہوتے ہیں،لیکن یہاں ایسا لگتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کے لشکر جرار کا اصل کام یہی ہے کہ صبح سے رات تک اپوزیشن پر گرجتے رہیں، آخرعوام کو فراموش رکھتے ہوئے سارا دھوم دھڑکا کب تک چلے گا؟ عوام کب تک خوشحالی کے خوابوں کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہی رہیں گے اور حکمران سمجھنے والی باتوں سے آنکھیں چرا کر کیا تیر مار یں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کی تر جیح عوام نہیں ،لیکن دونوں ہی عوامی قیادت کے دعوئیدار ہیں،حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کوگرانے اور دبا کیلئے تمام ہر بے استعمال کررہے ہیں۔ اپوزیشن نے جلسے ،ریلیوںکے بعد اپنی اکثریت والے ایوان بالا میں حکومت کے خلاف محاذ گرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سینٹ میں نیب کی کارروائیوں پر بحث کے دوران بھی اپوزیشن اور حکومتی ارکان ایک دوسرے پر زبانی تابڑ توڑ زبانی حملے کرتے رہے

،سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے ایوان کو بتایاکہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے قائم نیب کسی کے قابو میں نہیں، نیب افسران کا احتساب کیا جائے، ڈپٹی چیئرمین اور اپوزیشن اراکین کے اعتراضات کا وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ احتساب قوانین کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، تاہم نیب کا ادارہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے قائم ہوا‘ اس لیے اس کی خرابیوں کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی متعدد بار واضح کر چکے ہیں کہ نیب ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے۔ حکومت داروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔
نیب کے حوالے سے اپوزیشن قیادت اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے الزامات کو بعض حلقے ان کے خلاف نیب کی تحقیقات بتاتے ہیں۔نیب جب کسی سیاسی قیادت کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں تو الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔نیب بلا امتیاز احتساب کر نے کا دعویدار ہے ،جبکہ اپوزیشن کا اعتراض ہے کہ صرف انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔اپوزیشن قیادت ایک طرف احتسابی عمل کی حمایت کرتے ہیں

تو دوسری جانب احتساب ہونے پر سیاسی انتقام کا شور مچانے لگتے ہیں، نیب آجکل سلیم مانڈوی والا، خواجہ آصف اور مولا نا فضل الر حمن کے خلاف غیر قانونی اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کی انکوائری پر الزامات کی زد میں ہے ،جبکہنیب نے خواجہ آصف کے 48بینک اکائونٹس میں ایک ارب45کروڑکی خطیررقم جمع ہونے کا سراغ لگا لیا ہے، یہ بینک اکائونٹس خواجہ آصف فیملی اوربے نامی اداروں کے نام سے کھلوائے گئے تھے ۔اسی طرح نیب خیبرپختونخوا نے مولانا فضل الرحمن کے چار قریبی ساتھیوں کے خلاف ریفرنس دائر کردیا ہے، نیب خیبر پختون خوا نے مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی اور سابق ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر ڈی آئی خان موسی خان بلوچ سمیت چار ملزمان کے خلاف پانچ کروڑ 60لاکھ روپے مالیت کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائرکیا ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حقیقی جمہوریت وہی ہے جو جوابدہ ہو تی ہے۔ پاکستان میں ہر سیاسی رہنما اور انتظامی افسر زیادہ سے زیادہ اختیار کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن اس اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے اس پر جو قانونی ذمہ داریاں عائد کی جاتی ہیں، انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے، اسی سوچ کے نتیجے میں ملک میں احتساب کا نظام پروان چڑھ نہیں سکا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے صلاحیت کے لحاظ سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔

سیاسی مداخلت عام ہے،میاںنوازشریف دور حکومت میںاحتساب سیل کے نام سے ادارہ قائم کیاگیا اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے گئے،بعدازاںجنرل پرویز مشرف نے اسے قومی احتساب بیورو کا نام دیا، نیب پر( ن) لیگ اور پی پی نے الزام لگایا کہ یہ جنرل مشرف کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے استعمال ہو تارہا ہے۔تحریک انصاف حکومت نے اپوزیشن کو 2019ء کے آخر میں دعوت دی کہ نیب آرڈیننس پر مشاورت کی جائے،لیکن اپوزیشن نے قانون سازی کرنے کی بجائے تمام اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر کردیئے۔مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی بار ہا بر سر اقتدار رہنے کے باوجود نہ انتخابی اصلاحات اور نہ ہی نیب قانون سازی کرنے میں کا میاب ہوئے،مگر موجودہ حکومت پراپنی مرضی کی قانون سازی کروانے کیلئے دبائو ڈال ر ہے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیب مقدمات کی تفتیش‘ مدت تفتیش و ریمانڈ اور گرفتاریوں کے حوالے سے اعتراضا ت رہے ہیں، لیکن ان اعتراضات کو صرف مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے اور ہنگامہ آرائی کی نذر کرنے کی بجائے، اپوزیشن کو ایسی ٹھوس تجاویز پیش کرنی چاہئیں جو احتساب اور سیاسی انتقام میں امتیاز کرسکیں۔انتخابی عمل پر اعتراض یانیب کے ادارے اورچیئرمین کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تو اس کے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ نیب اور الیکشن کے موجودہ ڈھانچے پر تنقید ،دراصل اپوزیشن کی اپنی ماضی کی کاکردگی پر تنقید ہے،اس امر کو پیش نظر رکھ کر الیکشن اور بدعنوانی کے انسداد کا نظام نتیجہ خیز اور موثر بنایا جانا ضروری ہے ،یہ کام حکومت اور اپوزیشن میں تصادم کی بجائے باہمی تعلقات بہتر ہونے سے ہی انجام پا سکتا ہے،اس کے لیے مقتدر قوتوں کا دروازا کھڑکانے کی بجائے آپس میں مل بیٹھ کر معاملات سلجھانا ہو گے۔
یہ وقت آپس میں مخاصمت کا نہیں ،مفاہمت کا ہے، سیاسی مطالبات کیلئے سیاسی رویے ہی اچھے ہوتے ہیں اور حکومت تو نہ چاہتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کو مذاکرات کی پیشکش کر چکی ہے، کیوں کہ پی ڈی ایم کی بے وقت کی راگنی کی وجہ سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ کی سمجھدار قیادت کو مولانا کے سائے سے نکل کر سامنے آنا ہو گا ،کیوں کہ مولانا چاہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنی پارٹی کے چار سینئر اراکین کو نکالا ، اسی طرح پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کو بھی نکال باہر کریں

جبکہ حکومت کمزور ہو نے کی بجائے مضبوط ہو رہی ہے۔ پاکستان میں انارکی کا ماحول اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال کسی بھی صورت محب وطن حلقوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کی لہرمیں سیول اور فوج کے جوانوں کی شہادتیں بتا رہی ہیں کہ ملک دشمن قوتیں سرگرم عمل ہو چکی ہیں اور پی ڈی ایم کی بے جا تنقید اور فوجی قیادت کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی کا غیر ملکی طاقتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں ،اس تنا ظر میں مسلم لیگ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو سوچنا ہو گاکہ سیاسی مطالبات منوانے کیلئے غیرجمہوری کی بجائے جمہوری رویئے اختیار کرنا ہوں گے، اگراپوزیشن قیادت مولاناکے ہاتھ میں یوں ہی کھیلتے رہے تو ان کا حال بھی مولانا کی پارٹی والا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں