بڑے بے حس ہیں، مہنگائی باٹنے والے !
تحریر:شاہد ندیم احمد
موجودہ حکومت کی معیشت کی بحالی اور آئی ایم ایف قرضے کے معاہدے کے نتیجے میں کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے، جس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ غریب تو غریب سفید پوشوں کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اس وقت عوام کاسب سے بڑا مسئلہ بھوک، غربت وافلاس اور بڑھتی مہنگائی ہے، جس سے بے چارے عوام ہر دن نبرد آزما ہیں، اس کمر توڑ مہنگائی نے تو غریب کے سر سے چادر، کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی،سر چھپانے کے لئے چھت اور تن کے کپڑے تک چھین لئیے ہیں،حکومت کی جانب سے ایک کروڑ نوکریاں تو در کنار،
ایک دن کا کمانا مشکل ہو چکا ہے،اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے سڑکوں پر دھکے کھانے پر مجبور ہیں،حکومتی دعوئوں کے باوجود اداروں میں کہیں میرٹ نہیں،سفارش ،رشوت کے ذریعے سیاسی بھرتیاں ہورہی ہیں،اوپر سے لے کر نیچے تک سب کسی نہ کسی کے دست راست ہیں،جبکہ عام آدمی کے نصیب میںمہنگائی اور بے روزگاری سے نبر آزما ہو نا لکھ دیا گیا ہے ،اگر حکومت نے بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری پر قابو نہ پایا اور بے حسی کا یونہی مظاہرہ کیا جاتا رہا تو بہت جلد غربت، بھوک اور بیروزگاری کے تباہ کن اثرات سب کچھ بہا لے جائیںگے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک جانا جاتا تھا، لیکن آج پاکستان میں عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گیا ہے، اس ملک میں مہنگائی باٹنے والے بے حس لوگوں کی کمی نہیں ہے، ایک طرف بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ عدم دستیابی ہے تو دوسری جانب اشیا خوردنوش کی مسلسل قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں ،اس صورت حال میں وزیراعظم کا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ مہنگائی بڑھا نے میں مافیا ملوث ہے او ر ہم اس مافیا سے ہار نہیں مانیں گے ،بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے
کہ وہ صحیح پالیسیوں اور انتظامی کنٹرول کے ذریعے صارفین کو اشیا سستے نرخوں پر فراہم کرنے کے ساتھ مہنگائی مافیا کا سد باب کرے ،اگر چہ موجودہ حکومت برسرِاقتدار آنے کے بعد سے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے، تاہم ان کے اب تک کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے وزیراعظم نے ڈیسیشن سپورٹ سسٹم فار انفلیشن (ڈی ایس ایس آئی) کے نظام کی منظوری دے دی ہے جو ملک کے 17بڑے شہروں میں اشیائے
ضروریہ کی قیمتوں کو ریکارڈ اور مانیٹر کرے گا۔ اس نظام کے تحت 17شہروں کے بازاروں سے جمع کردہ اشیا کی قیمتوں اور ڈپٹی کمشنر آفس کی جانب سے متعین کردہ قیمتوں کا موازنہ کیا جائے گا۔ یہ نظام مارکیٹ کی معلومات اکھٹا کرنے کے علاوہ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے تناظر میں کارکردگی جانچنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔اس بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم عمران خان کا کوئی بھی قدم احسن ہو گا، کیوں کہ رواں سال کے دوران پاکستان میں افراطِ زر کی شرح ایشیا بھر میں سب سے زیادہ رہنے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے،
اگر وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم مہنگائی پر قابو پا کر عوامی اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کے لئے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کسی بھی سیاسی بحران پر قابو پانے کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا ،تاہم اس کے لیے مروجہ نظام کی خامیوں کو دور کرنا بہت ضروری ہیں، حکومت عوام کی بہتری کیلئے نیا نظام تومتعارف کرواتی ہے ،مگر انتطامیہ اپنے غیر ذمہ دارانہ رویئے کے باعث نا کام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔
حکومت کی جانب سے(ڈی ایس ایس آئی) نظام کی منظوری قابل تحسین ہے ،تاہم جب تک ڈسٹرکٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنراپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریںگے ،بڑھتی مہنگائی کا طوفان روکنا ممکن نہیں ہے،اس کیلئے انتظامیہ میں میرٹ پر تعیناتیوں کے ساتھ جوابدہ بنانا ہو گا،تبھی کوئی نظام کا میابی سے ہمکنار ہو سکے گا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تحریک انصاف حکومت عوام کو رلیف دینے کیلئے کو شاں ہے ،لیکن سیاسی کشیدگی کے ماحول میں حوصلہ افزا نتائج کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔اس تنا ظر میںمسلم لیگ (ق)کے صدر و سینئر سیاستدان چودھری شجاعت حسین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے
کہ ایک سال کیلئے تمام منصوبے ملتوی کرکے غربت کے خاتمے کیلئے قلیل المیعاد منصوبہ بندی کی جائے ،حکومت بیروزگار اور تنخواہ دار طبقے کیلئے کام کرے اورتمام سیاسی قیادت عوام کی تکلیف دور کرنے کیلئے اکٹھے ہوکر حکومت سے مکمل تعاون کرے۔ چودھری شجاعت کا اپنے اتحادیوں کو مشورہ صائب ہونے کے ساتھ نہ صرف وقت کا تقاضا، بلکہ جمہوری نظام کے استحکام کیلئے بھی ضروری ہے، کیونکہ جب تک عوام کو مہنگائی ،بے روز گاری سے ریلیف دینے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی نہیں کی جائے گی، محض اعلانات سے حالات نہیں بدلیں گے
اور تبدیلی کے ثمرات 2021ء میں بھی عوام تک پہنچنے کے امکانات مسدود ہوجائیں گے، کیونکہ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جنوری کے پہلے ہفتے سے ہی آٹا،گھی، چینی اور دالوں سمیت 22 اشیاء خوردنی مہنگی ہوگئی ہیں، اگر مہنگائی کی رفتار اسی تیزی بڑھتی رہی تو سال رواں میں عوام کو پیس کر رکھ دیگی ،حکومت اور اپوزیشن بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام میں مہنگائی باٹنے والوں کے حصہ دار بنے کی بجائے چودھری شجاعت کے مشورہ کو سنجیدگی سے لے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مل کر اقدامات کرے،ورنہ عوام دونوں کو ہی مسترد کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔