اللہ کے نام پر صدقہ دینا
میمونہ ارم مونشاہ
اللہ کے پسندیدہ اعمال میں سے ایک عمل اس کی راہ میں خرچ کرنا یعنی کسی کی مدد کرنا اور صدقہ دینا ہے۔اس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ: بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر و ثواب ہے۔ (سورۃ الحدید آیت نمبر 18) اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ ترجمہ: صدقہ کر کے اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق پیدا کرو، تمہیں رزق دیا جائے گا اور تمہارے نقصان کی تلافی بھی کی جائے گی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں یہ سب کیسے کیا جائے۔ انہیں لگتا ہے کہ مسجد وغیرہ میں سو دو سو دے کر وہ اللہ کو راضی کر رہے ہیں یا کوئی بھیک مانگنے والا آتا ہے
تو اسے پانچ دس روپے دے کر لگتا ہے ہم نے اپنے اچھے ہونے کا حق ادا کر لیا۔ بلاشبہ یہ اعمال بھی قابل تحسین ہیں مگر بہتر یہی ہے کہ آپ کے اردگرد اگر کوئی ضرورت مند موجود ہے تو پہلے اس کی مدد کی جائے اور وہ بھی ایسے کہ دوسرے ہاتھ تک کو معلوم نہ ہو کہ آپ نے کسی کی کیا اور کتنی مدد کی کیونکہ یہ آپ کا کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ ایک قرض ہے جو آپ اللہ کو دے رہے ہو اور وہ ضرور لوٹائے گا۔ اگر آپ سے کوئی اسکی مدد کرنے کو کہتا ہے تو اسے بنا جھڑکے یا ڈانٹے اسکی مکمل بات سن لیں مدد کا کہیں مگر پہلے یہ کنفرم کر لیں
کہ وہ واقعی اس مدد کا حقدار ہے یا نہیں۔ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا پر اور واٹس ایپ گروپ بنا کر ہر کسی نے آنلائن این جی اوز بنا رکھی ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی کی پوسٹ یا سٹوری لگی ہوتی ہے کہ ہمارے پاس ضرورت مندوں کے اتنے کیسز ہیں ڈونیشن کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ ٹھیک ہے نیک عمل کرنا بھی ایک صدقہ ہے اور اس ذریعے کسی ضرورت مند کی مدد ہو جائے اس سے بہترین بات کیا ہوسکتی ہے۔ مگر بیشتر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس عمل کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے وہ ہر کسی سے پیسے نکلواتے ہیں کچھ اپنے پاس رکھے کچھ مدد کردی۔ زیادہ لوگ تو فیک نام سے ہی مانگنا شروع کر دیتے ہیں اور جب انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی چالاکی سے کسی سادہ لوح انسان کو باآسانی بیوقوف بنا سکتے ہیں
تو وہ اپنے ساتھیوں کی بھی اس تک پہنچنے میں مدد کرتے ہیں کہ وہ بھی اسے لوٹے اس طرح وہ پورا گروہ گھر بیٹھے ذرا سی جذباتی جملوں اور جعلی تفصیلات سے اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نیک نیتی سے کسی دوسرے کی مدد کرتے ہیں اس کے لیے نہ صرف خود چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ اپنے حلقہ میں بھی سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اس نیک کام میں شامل ہو کر کسی ہی خوشی کا ذریعہ بنیں۔ ایسے لوگ اللہ کے عاجز ہوتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جو رقم کسی اور کی مدد کے لیے وہ اکٹھی کر رہے ہیں یہ درحقیقت ان لوگوں کا اللہ کو دیا قرض ہے جو اللہ کے نام پر دینے سے ہی اللہ کا انہیں لوٹانا واجب ہو جاتا ہے مگر جب اکٹھا کرنے والا ہی بد نیتی کرے
تو روز قیامت اللہ کے سامنے جواب دہ اسے ہونا ہوگا دینے یا لینے والے کو نہیں۔مدد کرنا اچھی بات ہے مگر اس معاملے میں اتنا جذباتی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کے ایک بار کہنے سے اسکی امداد کا وعدہ کر لیا جائے۔ بلکہ اس سے پہلے مکمل تحقیق کرنی چاہیے آیا کہ وہ شخص واقعی اس قابل ہے یا ضرورت مند ہونے کا ڈھونگ کر رہا ہے۔ دینے والے کی نیت چاہے اچھی کیوں نہ ہو مگر ایسے ڈرامے باز لوگوں کی ایک مرتبہ حوصلہ افزائی کر دی جائے تو انہیں اس چیز کی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر وہ کسی نہ کسی کو ٹھگتے ہی رہتے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ ایسے دو نمبر لوگوں پر اعتبار کر کے اسکی امداد ہوتی رہے
تو اصل حقدار مدد سے محروم ہو جاتے ہیں وہ سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے انکی ضرورت کا خیال رکھنا ہی انسانیت ہے۔اگر آپ کو کوئی سامنے سے یا سوشل میڈیا پر ہی کسی کی یا اپنی مدد کرنے کو کہتا ہے چاہے وہ فیس بک کے بہترین دوستوں میں سے ہی کیوں نہ ہو تو آپ پر لازم ہے کہ پہلے مکمل تفصیلات لیں اور پھر اگر وہ مدد کیے جانے کے قابل ہے تو اس کی مدد ضرور کریں کیونکہ ہوسکتا ہے آپ اسی عمل کی وجہ سے اللہ کے اور زیادہ قریب ہو جائیں۔
کچھ لوگوں کو اپنی دولت کا گھمنڈ ہوتا ہے کوئی ان سے اپنی یا کسی اور کی مدد کرنے کا کہے تو وہ صاف انکار کر دیتے ہیں اور اپنی زکوٰۃ یا صدقات کسی سو کالڈ ہائی فائی این جی او یا ٹرسٹ کو بھیجتے رہتے ہیں جہاں بہت کم ہوتا ہے کہ وہ امداد کسی حقدار تک پہنچائی جائے۔ تو بہتر یہی ہے کہ آپ کسی ضرورت مند کو اس کے منہ پر انکار مت کریں بلکہ اسے انتظار کا کہیں۔
پہلے معلوم کیا جائے اگر اسے واقعی ضرورت ہے تو آپ کے پاس صدقات کے لیے رکھی گئی چیز یا کسی رقم کا اس سے زیادہ حقدار کوئی بھی نہیں۔ وگرنہ آپ کے اردگرد لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو خدا سے دعا کیے معجزے کے منتظر ہیں کوئی مسیحا آئے اور ان کے حالات بہتر ہو جائے۔بیشک یہ دنیا اچھے اور برے لوگوں سے بھری پڑی ہے مگر اللہ پاک نے ہر انسان کو عقل سے نوازا ہے جس کا استعمال کر کے وہ اچھے برے کی تمیز بخوبی کر سکتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین