ٹرمپ ’برطرفی یا مواخذہ‘ کے دوراہے پر پہونچ گئے 205

ٹرمپ ’برطرفی یا مواخذہ‘ کے دوراہے پر پہونچ گئے

ٹرمپ ’برطرفی یا مواخذہ‘ کے دوراہے پر پہونچ گئے

آج کی بات (شاہ باباحبیب عارف کیساتھ)
امریکی ایوان نمائندگان کی اکثریت نے آئین کی پچیسویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے صدرٹرمپ کی برطرفی کے حق میں ووٹ دیا ہے اور ان کا مواخذہ کیا جا رہا ہے۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان نے اپنی تین بار کی ووٹنگ کے ذریعے اس قرارداد کو پاس کر دیا جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں نائب صدر پینس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو برطرف کردیں لیکن پینس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم صدر ٹرمپ کے مواخذے پر ووٹنگ بدھ کی رات میں ہوئی ۔یہ قرار داد ایسی حالت میں منظور ہوئی ہے

کہ منگل کو ہی مائک پینس نے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے نام ایک خط لکھ کر ٹرمپ کی اقتدار سے برطرفی کے لئے آئین کی ترمیم پچیس کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نینسی پلوسی نے بھی انتباہ دیا تھا کہ اگر مائک پینس نے آئین کی دفعہ پچیس کو فعال کرنے سے اجتناب کیا تو کانگریس کا اگلا قدم ٹرمپ کا مواخذہ ہوگا۔ٹرمپ کا دور صدارت اگلے ہفتے بیس جنوری کو ختم ہو رہا ہے۔ اگر ٹرمپ کا دور صدارت ختم ہونے سے پہلے ان کے خلاف تحریک مواخذہ کامیاب ہو جاتی ہے تو ممکن ہے وہ سینٹ کے فیصلے سے امریکہ میں کسی بھی انتخابی یا انتصابی عہدے پر فائز ہونے کی لیاقت سے محروم ہو جائینگے متعدد ریپبلیکنز اراکین کانگریس نے بھی کہا ہے وہ تحریک مواخذے کی حمایت کریں گے

اور ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیں گے-مائیک پینس کے انکار کے باوجود ایوان، مواخذے کی کارروائی کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ بھی ٹرمپ کی پیشانی پر ایک اور بدنما داغ ہوگا کہ وہ امریکا کے پہلے ایسے صدر ہیں جن کا دوبار مواخذہ ہو رہا ہے۔اس درمیان امریکہ کے چیف آف آرمی اسٹاف نے ایک خط میں کانگریس یا کیپٹل ہل میں پیش آنے والے واقعے کو آئین پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ امریکی فوج کے سینئر کمانڈروں نے اپنے خط میں اعلان کیا ہے کہ چھ جنوری دوہزار اکیس کو انجام پانے والی پرتشدد شورش امریکی کانگریس اور ہمارے آئین پر براہ راست حملہ تھا۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور احتجاج کا حق کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ تشدد اور شورش کا سہارا لے

۔امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف نے نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کا وقت قریب آنے کے پیش نظر امریکہ کے اندر اور باہر اس ملک کے فوجیوں کی آمادگی پر زور دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ہم آئین کی حمایت اور اس کا دفاع کرتے ہیں اور جو بھی اقدام آئین میں خلل ڈالے گا وہ نہ صرف ہماری روایات، اقدار اور آئین سے وفاداری کے حلف کے برخلاف ہے بلکہ آئین کے بھی خلاف ہے فارس نیوز کے مطابق یہ بل ایک سو ستانوے ووٹوں کے مقابلے میں دوسو انتیس ووٹوں سے منظور کرلی گئی ہےامریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈیموکریٹس نمائندوں کے ساتھ ساتھ خود ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی ریپبلیکنز کے دس نمائندوں نے بھی انکے مواخذے کے حق میں ووٹ ڈالا ہے

ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا یہ بل اگر امریکی سینٹ میں بھی منظور کر لیا جاتا ہے تو پھر وہ اپنے مواخذے سے بچ نہیں پائیں گے۔امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے مواخذہ بل کے جائزہ اجلاس میں کہا کہ ٹرمپ کو اقتدار چھوڑ کر جانا ہوگا۔ پلوسی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکیوں کے لئے ایک واضح اور موجودہ خطرہ شمار ہوتے ہیں خیال رہے کہ چند گھنٹے قبل امریکی ایوان نمائندگان نے ملکی صدر کے مواخذے کا بل اس لئے منظور کیا کہ گزشتہ ہفتے بدھ کے روز ڈونلڈ کے اکسانے پر انکے حامیوں نے امریکی کانگرس کیپتل ہیل پر اُس وقت دھاوا بول دیا تھا کہ جب امریکہ کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کو ملنے واللے الیکٹورل ووٹس کی توثیق کے لئے اجلاس ہو رہا تھا اس موقع پررونما ہونے

والی جھڑپوں اور پر تشدد واقعات میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کانگریس پر ہوئے حملے کو ایک دہشتگردانہ اقدام قرار دیا تھا۔باوجود اس کے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت 20جنوری کو ختم ہو جائے گی اور صرف ایک ہفتہ ہی اس میں باقی رہ گیا ہے، مگر اس وقت ٹرمپ اپنے غیر منطقی، انتہا پسندانہ، جارحانہ، نسل پرستانہ اور بے سوچے سمجھے اقدامات کے سبب اندرون ملک اس قدر غیر مطلوب عنصر میں تبدیل ہو چکے ہیں کہ امریکی قانون ساز ادارے انہیں ایک ہفتے کے لئے بھی صدر کے طور پر تحمل کرنے کا یارا نہیں رکھتے اور ان کی کوشش ہے کہ انکی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے پہلے انہیں یا تو عہدے سے برخاست کر دیا جائے یا کم از کم ان کا مواخذہ کیا جائے۔
ایران نے امریکی حکام بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ کی موجودہ صورتحال کو خود انکے اقدامات کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسے دنیا خصوصاً امریکہ کی نئی حکومت کے لئے باعث عبرت قرار دیا ہے۔جبکہ جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کے دوران دوبارہ ہنگامہ آرائی کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں امریکہ میں 20 جنوری کو نومنتخب صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری کے دوران دوبارہ ہنگامہ آرائی کے خدشات کے پیش نظر امریکی فوجی قیادت نے اپنے اہلکاروں اور ملازمین کے نام ایک سرکلر جاری کیا ہے، جس میں واضح طور پر یہ ہدایت کی گئی ہے کہ فوج آئینی اور جمہوری عمل میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی

۔فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ 6 جنوری کو کیپٹل ہل میں جو کچھ ہوا وہ غیر جمہوری اور مجرمانہ فعل تھا۔ آزادیٔ اظہار کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ اس ہدایت نامے میں چیئرمین جوائنٹ چیف جنرل مارک ملی سمیت امریکی مسلح افواج کے تمام سربراہان کے دستخط موجود ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن نو منتخب امریکی صدر ہیں اور وہ 20 جنوری کو صدارت کا حلف اٹھا رہے ہیں۔یہ ہدایت نامہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے دوران مجرمانہ سرگرمیوں اور اس دوران حاضر اور سابق فوجی اہلکاروں کے کردار کا بھی تعین کرنے میں کوشاں ہیں ادھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوانِ نمایندگان میں ڈیموکریٹک ارکان کی جانب سے اپنے مؤاخذے کی کارروائی کے عمل کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ کیپٹل ہل پر اپنے حامیوں کے حملے کے بعد صدر نے پہلی بار منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کی۔ صدر ٹرمپ نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ کیپٹل ہل پر حملے، اور اس دوران توڑ پھوڑ اور 5 افراد کی ہلاکت کے ذمے دار ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں