اِستغفار کی اہمیت و ضرورت 104

اِستغفار کی اہمیت و ضرورت

اِستغفار کی اہمیت و ضرورت

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اور جو گناہ ہو گئے ہیں یا آئندہ ہوں گے ان پر اِستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔اِستغفار کا معنی یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے ندامت کے ساتھ معافی مانگے۔اِستغفار کا حکم اور فوائد:اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک مقام پر اِستغفار کا حکم دیا ہے اور اس کے اہم اہم فوائد بھی بتلائے ہیں : مفہوم آیت: پھر میں نے(ان سے)کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ یقیناً وہ بہت زیادہ معافی دینے والا ہے۔(گناہوں سے معافی مانگنے پر وہ اتنا خوش ہوگا کہ)تم پرآسمان سے (فائدے والی)خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے اموال واولاد میں(برکت والی )ترقی دے گا تمہارے لیے( انواع و اقسام کے)کے باغات پیدا فرما دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں بہا دے گا۔

(سورۃ نوح، رقم الآیات: 10 تا 12)رجوع الی اللہ کا حکم:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حدیث قدسی ارشاد فرماتے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں خطاب فرماتے ہیں: اے میرے بندو!میںنے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے(یعنی میں ظلم سے پاک ہوں)جب میں نے اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے تو اسی طرح تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس لیے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو!جس کو میں(اپنی توفیق سے)ہدایت عطا فرما دوں اس کے علاوہ تم سب گمراہ ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت(کی توفیق)مانگو۔ میں ہی تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔

اے میرے بندو!جس کو میں (اپنے فضل سے ) روزی دوں اس کے علاوہ تم سب بھوکے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے(میرے فضل کو طلب کرتے ہوئے)روزی کا سوال کرو میں ہی تمہیں روزی دوں گا۔ اے میرے بندو!جس کو میں (اپنے کرم سے )لباس پہناؤں اس کے علاوہ سب ننگے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے(میرے کرم کی امید رکھتے ہوئے)لباس مانگو میں ہی تمہیں لباس دوں گا۔ اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہواور میں تمہارے گناہ معاف کرتا ہوں اس لیے مجھ ہی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو میں ہی تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے

اور نہ ہی مجھے نفع دے سکتے(یعنی تمہارے گناہوں سے مجھے نقصان نہیں اور تمہاری نیکیوں سے مجھے فائدہ نہیں بلکہ گناہ اور نیکی کا نقصان اور نفع صرف اور صرف تمہارے لیے ہے)اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت پرہیز گار دل کی طرح بن جاؤ تو اس سے میری مملکت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اے میرے بندو!اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت بدکار دل کی طرح بن جاؤ تب بھی میری مملکت میں کسی ادنی سی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب کے سب مل کر کسی میدان میں کھڑے ہو جائیں

اور پھر مجھ سے(اپنی اپنی زبان میں اپنی اپنی ساری ضروریات) مانگیں اور میں ہر ایک کی اس کی تمام ضروریات دوں تب بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں ہوگی جتنی کہ سمندر میں سوئی گرنے سے پانی کے کم ہونے کی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ میں تمہارے اعمال کو یاد رکھتا ہوں اور انہیں(تمہارے حق میں اتمام حجت کے طور پر)لکھوا لیتا ہوں۔ میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا اس لیے جو شخص بھلائی پا لے اسے چاہیے کہ وہ مجھ اللہ کی حمد و شکر ادا کرے اور جس شخص کو بھلائی کے بجائے برائی ملے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیونکہ( بعض دفعہ)یہ اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6664)
گناہوں کا زنگ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مومن بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی وجہ سے ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے اگر وہ اس گناہ سے توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کے دل سے سیاہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ توبہ کے بجائے مزید گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ مزید بڑھتا رہتاہے یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ہرگز ایسا نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ ہے ان چیزوں کا جو وہ برے اعمال کرتے ہیں۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:3334)اگر گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں!
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:اے آدم کی اولاد! جب تک تو مجھ سے امید رکھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا میں تیرے گناہوں کو بخشتا رہوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں(کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر(بالفرض) تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے ان کی معافی مانگے تو میں معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں(کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد!اگر تو مجھ سے اس حالت میں ملے کہ تیرے نامہ اعمال میں اتنے گناہ ہوں جن سے زمین بھر جاتی ہے تو تیری توبہ و استغفار کی وجہ سے میں بھی تجھے اتنا ثواب عطا کروں گا کہ جن سے زمین بھر جائے گی بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث: 3540)
تنگی اور غم سے نجات اور رزق کا ملنا:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص استغفار کی عادت بنا لے اللہ تعالیٰ اسے ہر تنگی و پریشانی سے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور ہر رنج و غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کو ایسی ایسی جگہوں سے(حلال اور وسعت والا)رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ (سنن ابن ماجۃ، رقم الحدیث: 3819)
بنی اسرائیل کے ایک قاتل کی توبہ:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا اور پھر علماء بنی اسرائیل سے یہ پوچھنے کے لیے چل پڑا کہ اتنے بڑے گناہ یا گناہگار کے لیے توبہ کے قبول ہونے کوئی صورت ہے؟ ایک عابد و زاہد شخص نے اس کو جواب دیا کہ نہیں توبہ کے قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ اس شخص نے اس عابد و زاہد کو بھی مار ڈالا۔ پھر باقی علماء سے پوچھنے کے لیے چل نکلا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ تم فلاں بستی میں جاؤ وہ نیک لوگوں کی بستی ہے اور وہاں فلاں عالم رہتے ہیں ان سے مسئلہ پوچھو وہ تمہیں توبہ کے قبول ہونے کے بارے میں ٹھیک فتویٰ دے گا۔

وہ شخص اس بستی کی طرف چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے پر ہی پہنچ پایا تھا کہ اچانک ملک الموت آ پہنچے اس کو جب مرنے کی علامات محسوس ہوئیں تو اس نے اپنا سینہ اسی بستی کی طرف جھکا کر گر پڑا۔ چنانچہ اس کی روح نکالنے کے لیے رحمت اور عذاب کے فرشتے ملک الموت سے ایک طرح کا جھگڑا کرنے لگے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے اس بستی(جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا )کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کے قریب ہو جائے اور اس بستی(جہاں سے قتل والا گناہ کر کے آ رہا تھا )کو حکم دیا کہ وہ اس سے دور ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا کہ کہ تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگروہ اس بستی کے قریب جس کی طرف وہ توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے۔ فرشتوں نے جب پیمائش کی تو وہ اس بستی کے قریب تھا جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا وہ بنسبت دوسری بستی کے ایک بالشت قریب تھا چنانچہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3470)
قابل مبارک باد وہ شخص:
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص قابل مبارک باد ہے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہوگا۔ (سنن ابن ماجۃ، رقم الحدیث: 3818)مرحومین کے لیے استغفار کا فائدہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرماتے ہیں تو وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ!مجھے یہ درجہ کیسے نصیب ہوا؟(حالانکہ میں نے تو ایسی نیکی نہیں کی) اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ تیرے لیے تیری اولاد نے استغفار کیا ہے اس لیے میں نے تیرا ایک درجہ جنت میں مزید بلند کر دیا ہے۔ (سنن ابن ماجۃ، رقم الحدیث: 3660)اللہ تعالیٰ گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اگر گناہ ہوجائیں تو ان پر استغفار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں