’’پاسکو کرپشن اور حکومت پاکستان‘‘
تحریر: اکرم عامر سرگودھا
جد واڑھ واہی نوں کھاندی اےاوتھے کھیتی مول نہ راہندی اے جب سے ملک معرض وجود میں آیا ہے، اس وقت سے ہر آنے والا حکمران کرپشن کی لعنت ختم کرنے کا نعرہ لگاتا رہا ہے۔ مگر کوئی بھی حکومت اس گھناونے فعل کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان نے بھی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالتے ہی نعرہ مستانہ بلند کیا تھا کہ وہ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے نکال پھینکیں گے، موصوف نے ایسے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کیا تھا، اب کپتان کی حکومت کو اڑھائی سال گزرنے کو ہیں مگر کرپشن کا ناسور کم ہونے کی بجائے بڑھتا نظر آ رہا ہے،
سیاستدان،جاگیر دار، وڈیرے محکمہ جات کے افسران و ملازمین، صنعتکار، تاجر، کاشتکار حتی کہ ایسا لگ رہا ہے کہ قوم کی اکثریت اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ ہر کرپشن کرنے والے کا طریقہ واردات منفرد ہے، کوئی سرکاری زمینیں خورد برد کر کے کرپشن کا مرتکب ہو رہا ہے، تو کوئی رشوت لے کر، کوئی بینکوں سے قرضہ لے کر ہڑپ کر رہا ہے تو کوئی سرکاری بجٹ خورد برد کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ اس طرح ملک میں ہر طرف کرپشن کا راج ہے۔ ملک میں کرپشن کی روک تھام کیلئے کام کرنے والے وفاقی اور صوبائی سطح کے ادارے بھی اس کی روک تھام میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں، اس طرح کرپشن ملک میں دہشتگردی سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی ہے
جو وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ آئے روز ملک میں کرپشن کے نئے نئے طریقے اور سکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں جنہیں سن کر عام آدمی ورتہ حیرت میں مبتلاء ہو جاتا ہے۔ راقم زیر نظر تحریر میں کرپشن کی ایک چھوٹی سی کہانی بیان کر رہا ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک کرپشن کی لعنت کے باعث باہرکے ممالک سے گندم خریدنے پر مجبور ہو گیا ہے، مگر ایسے حالات پیدا کرنے والے کرپٹ مافیا کو نکیل نہ ڈالی جا سکی، جنہوں نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اس کی چھوٹی سی مثال کچھ یوں ہے زونل ہیڈ پاسکو ساہیوال نے مبینہ کرپشن کی انتہا کر دی، تحصیل پاکپتن میں 2020ء میں پاسکو گندم خریداری کے 19مراکز قائم کیے گئے
جنہیں سرکاری سطح پر 9 لاکھ بوری گندم خریدنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق زونل ہیڈ پاسکو ساہیوال فی بوری 8روپے اضافی کٹوتی کرتا رہا، اس طرح موصوف نے 9 لاکھ بوری گندم خرید کر 72 لاکھ روپے خورد برد کئے۔ جبکہ موصوف نے لیبر ٹھیکیداروں سے فی سنٹر تقریباََ30ہزار روپے وصول کر کے لیبر کا ٹھیکہ دیا، اس طرح 19 مراکز سے 5لاکھ 70ہزار روپے رشوت لی۔ اتنی بڑی کرپشن سے بھی من نہ بھرا تو موصوف پاسکو ہیڈ جبران نے گندم بیچنے والی مختلف پارٹیوں سے بھاری رقوم لے کر ان سے ساز باز کرکے ناقص کوالٹی کی گندم اور وزن بڑھانے کیلئے
مٹی اور پانی کا استعمال بھی کرایا، جس کے سامنے ماتحت اہلکار اور لیبر ٹھیکیدار بے بس ہو کر رہ گئے ٹھیکیداروں کا ٹھیکہ منسوخ کر کے نئے ٹھیکیدارلانے کی دھمکیاں اور پاسکو اہلکاروں کونوکری سے نکالنے یا تبادلے کے خوف نے خاموش تماشائی بنائے رکھا اس کے علاوہ زونل ہیڈ پاسکو ساہیوال نے ہر پاسکو سینٹر سے 50 سے 60بوری گندم اپنے ٹاوٹ کے ذریعے مقامی فلور ملز کو فروخت کر دی مبینہ کرپٹ زونل ہیڈ نے اسسٹنٹ پرچیز انسپکٹر خالد گجر اور عمران چوکیدار سے مل کر مختلف پاسکو سینٹرز سے اٹھائی گئی 395 بوری گندم جس کا وزن 987.5 من ہے 2172500روپے بنتی ہے، آڑھتی اللہ بخش اور فلور مل مالک علی شیر کو فروخت کی۔ اس کے علاوہ گندم خریداری اور سٹاک کے
وقت توڑی اور مارکیٹ کمیٹی کی رقوم بھی کرپشن کی نذر ہو گئیں۔ اس تمام کرپشن پر ذرائع کے مطابق زونل ہیڈ نے صرف پاسکو سینٹرز سے اٹھائی جانے والی 395 بوری گندم کی ذمہ داری اس طرح قبول کی ہے کہ نہر کا بند ٹوٹنے سے زیر آب آنے والا پاسکو سینٹر گرودتہ پر ہونے والا نقصان پورا کرنے کیلئے گندم اکٹھی کی گئی جبکہ گرودتہ سینٹر کے انچارج کے مطابق اس نے ایک بوری بھی گندم وصول نہیں کی۔ویسے بھی جب یہ واقعہ رونما ہوا تو ڈپٹی کمشنر پاکپتن احمد کمال مان کی زیر نگرانی ضلعی انتظامیہ کی مدد سے بھاری مشینری کے ساتھ فوری طور پر قابو پا لیا گیا تھا جس پر صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے جنرل مینجر فیلڈ پاسکو میجر ریٹائرڈ مظاہر اقبال نے دورہ کیااور تمام سٹاک محفوظ پا کر اہلکاروں کو شاباش دی تھی۔
کپتان جی یہ تو کرپشن کا ٹریلر ہے فلم نہیں؟ کیونکہ وفاق، پنجاب، بلوچستان، سندھ، کے پی کے؛ کے محکمہ جات پاسکو، ریلوے، سوئی گیس ، محکمہ خوراک، لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ، محکمہ بلڈنگ، ہائی وے حتی کہ ملک کے ہر ادارہ میں کرپشن کے ایسے لا تعداد سکینڈل نادیدہ قوتوں نے فائلوں میں دبوا رکھے ہیں۔ جبکہ ملک میں اربوں روپے کی سرکاری اراضی پر قبضہ مافیا نے پنجے گاڑ کر کرپشن کررکھی ہے۔
اس بابت عدالت عظمی کے احکامات کو پس پشت ڈال کر یہ رقبے واگزار نہیں کرائے جا سکے۔ جبکہ سرمایہ داروں نے بینکوں سے قرضہ کی مد میں لئے اربوں روپے دبا رکھے ہیں۔ جس کا دائو لگے وہ ملک کو بے دردی سے لوٹ کر کھوکھلا کر رہا ہے۔ ملک میں کرپشن کی روک تھام کرنے والے اداروں کا وجود مبہم نظر آ رہا ہے یا پھر وہ بھی اپنا حصہ بقدر جسہ لے کر آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ہیں۔ پکڑ دھکڑ تو صرف چھوٹے کرپٹ عناصر کی ہو رہی ہے۔
کپتان جی آپ نے برسر اقتدار آ کر پہلی تقریر میں کہا تھا کہ کرپشن کے خاتمہ بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا اور یہ بھی کہا تھا کہ میری پہلی ترجیح کرپشن میں ملوث کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈالنا ہو گا۔ مگر کپتان جی ایسا تو ہو رہا ہے مگر آٹے میں نمک کے برابر، پاکپتن کرپشن سکینڈل جیسے کئی کیس ملک کا نظام چلانے والے اداروں میں موجود ہیں، چیک اینڈ بیلنس کا فقدان ہونے کے باعث کرپشن کے بڑے بڑے بادشاہ اب بھی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے عناصر کو قانون کی
گرفت میں لانے کیلئے واضح لائحہ عمل ترتیب دیا جائے کرپٹ عناصر کی فائلوں کودفاتر کی الماریوں سے نکلوا کر اس پر جمی ’’گرد‘‘ صاف کر کے انکوائریاں کرا کر کرپشن میں ملوث عناصر کو قانون کی گرفت میں لایا جائے ورنہ کرپشن کے خاتمے کا آپ کا نعرہ بھی دیوانے کا خواب ثابت ہو گا۔ اور جب تاریخ لکھی جائے گی تو آپکا نام بھی ماضی کے سیاستدانوں میں شمار ہو گا جو نعرے تو لگاتے رہے مگر ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہ کر سکے۔