احتجاج میں راہ نجات کی تلاش !
تحریر؛شاہد ندیم احمد
اپوزیشن کے حکومت مخالف احتجاج نے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے، اپوزیشن قیادت کا ایجنڈا ہر قیمت پرحکومت گرانا ہے ،جبکہ حکومت گرنے کے دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں،حکومت اور اپوزیشن کے تصادم میں بگڑتی صورتحال سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرسکتی ہے اور ملک کو کسی انجان راستے پر بھی ڈال سکتی ہے،تاہم اپوزیشن اورحکومت کو ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں ہو سکا کہ ملک کے ساتھ خطے میں بھی کچھ اہم تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اوران تبدیلیوں کے اثرات جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں، یہ اثرات اپنی نوعیت کے لحاظ سے دفاعی اور معاشی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس صورت حال میں ریاست اور عوام خود کو منظم‘ متحد اور مستعد رکھیںگے توہی منفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں گے۔
یہ امرواضح ہے کہ خطہ پہلے ہی افغان تنازع کے کئی مضمرات کو بھگت چکا ہے ،تشدد پسندی ،دہشت گردی ،منشیات اور مہاجرین کے دبائو نے پاکستانی سماج سے افغان تنازع کا فریق بننے کا خراج وصول کیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی جنگ اور خانہ جنگی کے شکار افغانستان سے امریکہ نکل رہا ہے،حالیہ دنوں امریکہ نے اپنے پانچ ہزار فوجیوں میں سے نصف کو اگلے چند روز میں افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس امریکی فیصلے کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک کمیٹی کی سربراہی بھارت کو دیدی گئی ہے۔ یہ کمیٹی افغان طالبان پر پابندیوں کا جائزہ لینے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اس فیصلے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھارت کی مدد سے امریکہ اپنے اتحادیوں کو اس تنازع سے جڑے اہم معاملات میں شریک رکھنا چاہتا ہے، ہمارے کئی سابق اتحادی اپنی ترجیحات تبدیل کر چکے ہیں،اس تناظر میں ایسا نہیں کہ ریاست پاکستان نے اپنی سمت کا تعین نہیں کیا،چین ،روس ،وسط ایشیا ،ترکی ہماری نئی ترجیحات ہیں، دفاع کے ساتھ معیشت کی مضبوطی پر توجہ دی جا رہی ہے ،لیکن نظام کی خرابیوں اور نقائص کو بنیاد بنا کر اپوزیشن آئے روز نیا بحران پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہے،
اس سے حکومت کی توجہ بٹنے کے ساتھ انتشار بھی بڑھ رہاہے۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکونگ کیلئے فارن فنڈنگ کے الزامات لگا رہے ہیں، جبکہ مختلف ممالک میںفارن فنڈنگ کئی طرح کی ہوتی ہے،پسماندہ ممالک میں کام کرنے والی آرگنائزیشنز(این جی اوز)کا سارا کام ہی بیرونی فنڈنگ سے چلتا ہے۔ سابق دور میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بیرونی فنڈز پر کام کرنے والی این جی اوز کو نئے سرے سے رجسٹرڈ کرنے کا منصوبہ دیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت درجنوں این جی اوز کو پاکستان کی سلامتی و استحکام کے خلاف سرگرمیوں پر معطل کر دیا گیا تھا، ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ، بھارت میں بھی کیا گیا ،جہاں چالیس ہزار سے
زیادہ این جی اوز میں سے 20ہزار کی سرگرمیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ حال ہی میں ڈس انفو لیب کی رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ہے ،اس میں ایسے تین سو کے لگ بھگ میڈیا ہائوسز‘ ویب پورٹل اور ریسرچ اداروں کا انکشاف ہوا کہ جنہیں بھارت کے سری واستو گروپ کی جانب سے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کے لئے فنڈز فراہم کئے جاتے تھے۔اس ڈس انفو نیٹ ورک کی جانب سے بعض معاملات پر ریاست پاکستان اور سکیورٹی اداروں کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا گیا ،حکومت مخالف عناصر نے بلا تحقیق اس الزام تراشی کو اپنے سیاسی بیانئے کا حصہ بنا لیا ہے ۔
تحریک انصاف پر الزام لگایا جارہاہے کہ اس نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے بیرون ملک سے فنڈز حاصل کئے ہیں۔یہ فنڈز کن غیر ملکیوں یا قابل اعتراض شخصیات سے لئے گئے، اس کی تفصیل مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن اسمبلیحنیف عباسی اور تحریک انصاف کے منحرف کارکن اکبر ایس بابر کی جانب سے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو فراہم کی گئی دستاویزات کا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے چھ برس تک اس معاملے کی سماعت کی ہے۔ بہت سے قانونی پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے اصولی بات یہی ہو گی کہ متعلقہ اداروں کو اازادانہ طور پر اپنا کام کرنے دیا جائے،
الیکشن کمیشن اس سلسلے میں جو فیصلہ کرے، وہ کسی ہنگامہ آرائی یا دبائو کا نتیجہ نہیں ہونا چاہیے،ملک میںفیصلے جتنے آزادانہ ہوں گے، ان کی قبولیت کی شرح بھی اسی طرح زیادہ ہو گی، جمہوریت کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ اداروں کو حکومت اور اپوزیشن کے دبائو سے آزاد رکھا جائے، مسلم لیگ (ن) پر الزام رہا ہے کہ اس نے حسب منشا فیصلہ لینے کے لئے سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے علاوہ دبائو استعمال کیا ہے، اپوزیشن جماعتوں کو سیاست ضرو کرنی چاہیے ،مگر سیاسی سرگرمیوں کی آڑ میں غیر آئینی اقدامات سے گریز کرنا چاہئے ۔اپوزیشن قیادت حکومت کو گھر بھیجنے کے آئینی طریقے سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں ،اس کے باوجود غیر آئینی طریقہ کار پر گامزن ہیں،پی ڈی ایم قیادت حکومت
مخالف تحریک کامیاب نہ بناسکی توفارن فندنگ کیس پر احتجاج کرکے عزت بچارہی ہے،جبکہ فارن فندنگ کیس میں اپوزیش اور حکومت دونوں ہی جوابدہ ہیں ، تاہم پی ڈی ایم کا الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج قومی ادارے کو دھمکانے کی بھونڈی کوشش کے علاوہ کچھ نہیںہے ،حکومت کو پھنساتے پھنساتے اپوزیشن خود پھنس چکی ہے اور اپنے احتجاج میں راہ نجات تلاش کررہی ہے،سیاسی جماعتوں کااحتجاج کرنا،بنیادی جمہوری حق ہے، تاہم اداروں کا تقدس اور احترام بہرصورت ملحوظ خاطر رہنا چاہئے اور احتجاج کو اس حد تک نہیںلے کر جانا چاہئے
کہ نوبت حالات کی خرابی تک جا پہنچے اور جمہوری حق لیتے جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دینے کی نوبت آ جائے، لہٰذا حکومت اوراپوزیشن دونوں کو حالات کی سنگینی اور معاملات کی نزاکت کا خیال رکھنا ہو گیا، کیونکہ وطن کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سب کو شانہ بشانہ رہنا ہے، حکومت اور اپوزیشن دونوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا، تاکہ حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ چلے جائیں، سیاست وجمہوری روایات کو قانون و آئین کے دائرے میں رکھنے کی ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہی عاید ہوتی ہے۔