ضمیرکاقیدی ہوں ایک سوال کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کیا پاکستان آزاد ہے؟ 220

الیکشن کمیشن کا فارن فنڈنگ کیس میں انتہائی نازک معاملہ ہے!

الیکشن کمیشن کا فارن فنڈنگ کیس میں انتہائی نازک معاملہ ہے!

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کا اپنی جماعت کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے زیر التواء ہے کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔

ان کا یہ بھی الزام تھا،کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔اس کیس کا فیصلہ گزشتہ چھ سالوں سے نہیں ہوا جس کی وجہ سے بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے فیصلے میں تاخیر پرایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ ای سی پی کے دفتر کے سامنے ہوا۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے ملک کی بے بس الیکشن کمیشن جو منصفانہ انتخابات نہ کراسکی اور طاقتور اداروں نے انتخابات پر قبضہ کیا، انہوں نے نتائج مرتب کیے

اور قوم پر ایک ڈفلی بجانے والے کو مسلط کردیا۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 6 سال سے تاخیر کا شکار ہے جبکہ دوسرے فیصلوں میں فوری انصاف کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔اس موقع پر مسلم لیگ ن کے نائب صدر مریم نواز نے بھی شدید تنقیدی خطاب کیا۔پی ڈی ایم واضح کرچکی ہے ان کا مقصد الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنا تاکہ وہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ کرے۔ اپوزیشن کے اس اقدام کو حکومت کی جانب سے ایک اور این آراو حاصل کرنے کی کوشش قراردیا گیا۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی) کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں

خاطرہ خواہ پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ جاری اعلامیے میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ بغیر کسی دباو کے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے اور ادارہ اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ عام انتخابات ہوں یا سینیٹ کے، بلدیاتی ہوں یا ضمنی انتخابات، الیکشن کمیشن ان کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے موجودہ الیکشن کمیشن نے بوجہ کورونا، وکلا کی عدالتی مصروفیات اور اسکروٹنی کمیٹی کے

ایک ممبر کی ریٹائرمنٹ کے باوجود خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔اب اسکروٹنی کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہفتے میں کم ازکم تین روز اجلاس منعقد کرے تاکہ یہ کیس منطقی انجام تک پہنچ سکے۔اس کیس پر پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔جس کے بعد فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا،

علاوہ ازیں پی ٹی آئی کا اسرار ہے کہ اس شخص کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے جماعت کے فنڈ سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا ہے جس پر اسی سال آٹھ مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔اس کے بعد مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے

معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو اب تک فارن فنڈنگ کی تحقیقات کررہی تھی اور گزشتہ ماہ ہی الیکشن کمیشن میں اپنی رپورٹ جمع کروائی جسے ای سی پی نے مسترد کرکے تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔دیکھا جائے تو نہ صرف یہ تحریک انصاف کے لئے اہم بلکہ دیگر جماعتوں کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ ملک میں جمہوریت کے لئے انتہائی اہم ہے کیونکہ فارن فنڈنگ کو جواز بناکر ملک کی بڑی سیاسی یا پھر قوم پرست جماعتوں پر پابندی

عائد ہونے کی صورت میں بہت بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسی صورت میں یا تو اسٹیبلشمنٹ کو برائے راست اقتدار سنبھالنا ہوگا یا پھر ٹیکونوکریٹس کے حوالے کرنا ہوگا جس کے بعد ایک نئی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں مکالمے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے دونوں جانب کی سنجیدہ قیادت کو آگے آنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں