شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 95

تصادم سے بچائو کا ایک فورم بچا ہے!

تصادم سے بچائو کا ایک فورم بچا ہے!

تحریرشاہد ندیم احمد
عوام نے دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مسترد کرکے تحریک انصاف سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے تبدیلی کے نعرے پر مینڈیٹ دیا تھا،اس تبدیلی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عوام نے دو پرانی سیاسی جماعتوں کے بجائے ایک نئی سیاسی جماعت کو ووٹ دیا ،بلکہ لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی کا مطلب تھا کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے،معاشی بحران ختم ہوگا، میرٹ اور انصاف کا نظام قائم ہوگا، ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا، غیرجمہوری قوتوں کا عمل دخل ختم ہوگا، سیاسی اور سویلین حکومت مضبوط ہوگی ،لوگوں کو غربت، تنگ دستی، بیروزگاری سے نجات ملے گی،

معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں گی، بے گھر لوگوں کو گھر ملیں گے اور سب سے اہم بات کہ سیاست میں شائستگی آئے گی اور جمہوری و خوش حال معاشرے کے قیام میں مدد ملے گی۔ اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات عاید کررہی ہیں، ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے کی تمام تر کو ششیں جاری ہیں،ملک کی تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے خلاف براڈ شیٹ اسکینڈل اور فارن فنڈنگ کیس فرد جرم بن گیا ہے،ملک میں تحقیقاتی اداروں کی موجودگی میں حقائق پر پردہ ڈالا جارہا ہے،

اربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈل قومی صحافت و سیاست کا موضوع بنے ہوئے ہیں، جبکہ عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں،وفاقی کابینہ کے اجلاس بھی تواتر سے ہورہے ہیں،جن میںملکی معیشت کی بحالی اور عوام کی زندگی میں بہتری لا نے کیلئے فیصلہ سازی کی جارہی ہے، مگرسوال یہ ہے کہ معاشی حالات کی بہتری کے لیے حکومتی پالیسیوں کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے کہ معیشت کے حوالے سے ان کی حکومت نے کافی مشکل فیصلے کیے ہیں،شائد مشکل فیصلے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کی زندگی کو متاثر کرنے والے اقدامات اور پالیسیاں ہیں کہ جن کی ہدایت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے آتی ہے۔ اس کے ساتھ عوام کو تسلی بھی دی جاتی ہے

کہ اس وقت مشکل فیصلے برداشت کرلیں، اس کے نتیجے میں معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے، آمدنی اور ذرائع روزگار میں اضافہ ہوگا، معاشی ترقی ہوگی، اس تکلیف سے گزر جانے کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے۔پا کستانی عوام کو ایسے بیا نات پہلی بار سننے میں نہیں آرہے ہیں، وزیراعظم بھی وہی جملے دہرا ر ہے ہیں ،جو اس سے قبل غیر ملکی معاشی تنظیمیں اور ان کے نمائندے پیش کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم مشکل فیصلے کی طرح ایک اور نئی سیاسی اصطلاح بار بار استعمال کرتے ہیںکہ این آر او نہیں دیںگے اور این آر او کو پاکستان کے عوام کی معاشی تباہی کا اصل سبب قرار دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے دعوے میں وزن ہے، لیکن وہ پوری حقیقت بیان نہیں کرتے اور یہ نہیں بتاتے کہ امریکی ثالثی میں فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ کرایا گیا تھا کہ جس کا مقصد تھا کہ امریکا کو انسانیت دشمن’ وار آن ٹیرر‘کی سیاسی حمایت مطلوب تھی،

اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بدعنوانی کے مقدمات اور ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے مقدمات ختم کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ کنڈو لیزا رائس نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان سودے بازی بھی کروائی تھی، اس کے باوجود انہیں سفاکی اور بے دردی سے راولپنڈی کی سڑک پر دہشت گردی کانشانہ بنادیا گیا۔ لیکن وہ معاہدہ جاری رہا اور آصف علی زرداری کی قیادت میں حکومت قائم ہونی ،جس میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کا تباہ کن فیصلہ کیا گیا۔ امریکا نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر مجبور کیاتھا، اس کے بعد سے ہر حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی مقدار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف معاشی بحران کے علاج کے لیے جتنے بھی نسخے پیش کرتا ہے، اس کا مقصد امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ قوتوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے جانے کے بعد آئی ایم ایف کے ہی پاکستانی نژاد آلہ کار معاشی وائسرائے بن کر مسلط ہوجاتے ہیں۔وزاعظم عمران خان بھی مزاحمت کے باوجود آئی ایم ایف کے در پر جانے پر مجبور ہوئے ،جس کے نتیجے میں وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک درآمد کرنا پڑے ،اس کے بعد سابقہ حکومتوں کی پیدا کردہ معاشی تباہی کی رفتار کم ہو نے کی بجائے مزید تیز ہوگئی ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ جس طرح ذرائع روزگار محدود ہوتے جارہے ہیں، اس نے ’تبدیلی‘ کے سارے خوابوں کوچکنا چور کردیا ہے۔

ملک کے ابتر حالات کا تجزیہ اس جملے میں ممکن نہیں ہے کہ مشکل فیصلوں کی وجہ سے عوام کے حالات پر بُرا اثر پڑا ہے۔ اس سلسلے میں مکمل اور درست تجزیہ کرناضروری ہے، اس کے ساتھ حقیقی کرداروں کو بے نقاب کیے بغیر معاشی تباہی کے اسباب کا تعین نہیں کیا جاسکتاہے،حکومت کبھی آئی ایم ایف کے مسلط کردہ ماہر معاشیات کے نرغے میںخوشحالی کی راہ پرگامزن نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ملک ترقی کر سکے گا ،حکومت کی اپنی معاشی ٹیم ہی ملکی و سیاسی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بہتر فیصلوں سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔
تحریک انصاف اور اس کے قائد وزیراعظم عمران خان نے پا کستانی عوام میںاُمید کی نئی چنگاری ایک بار پھربھڑکانے کی کوشش کی تھی۔ وزیر اعظم کو تاریخ نے ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس چنگاری کو ایک بڑے آلائومیں بدل دیں،لیکن اس موقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت جن خرابیوں کی ذمہ داری ماضی کی سیاسی حکومتوں پر ڈالتی جا رہی ہے ، ان خرابیوں میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ماضی کی سیاسی حکومتوں کی سیاسی قیادت خرابیوں کے دیگر ذمہ داروں کی طرف اشارہ کرتی تھیں، حکومت نے ان دیگر ذمہ داروں کی صرف پردہ پوشی کی ہے، عوام بیانات کی بجائے عملی اقدامات کے نتیجے میں رلیف چاہتے ہیں، لوگوں کے پاس حکومت کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا نہیں ،

مگر حکومت اپنا سارازور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر لگارہی ہے،ملک میں سیاسی انتشار کی فضاء ہے، یہ کسی بھی عہد کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے۔ملک میںہر طرف سے طوفانی مدوجذر ہے،صرف ایک فورم بچا ہے کہ جس پر پناہ لی جا سکتی ہے، وہ فورم پارلیمنٹ ہے جو غیر فعال ہوتی جا رہی ہے۔ پارلیمان ملک کے عوامی اور قومی مسائل سے اپنے آپ کو دور کرتی جا رہی ہے، وہ پہلے ڈیبیٹنگ فورم تھا، اب خیر سے وہ بھی نہیں رہا ہے، اگر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کریں گے تو پھر جمہوریت کے دعوئیداروں کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں بچے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں