حفاظت زبان محافظِ ایمان ہے 88

حفاظت زبان محافظِ ایمان ہے

حفاظت زبان محافظِ ایمان ہے

تحریر:فرزانہ خورشید
حضرت سلیمانؑ کا قول ہے” کلام کی کثرت میں کچھ نہ کچھ گناہ ہوگا مگر وہ جو اپنے لبوں کو روکے رہتا ہے بڑا دانا ہے”. در حقیقت زبان وہ چیز ہے جس پر اگر قابو نہ کیا جائے تو اس کی تیزی اور چرب زبانی سے بہت سے خطرناک نتائج برپا ہوتے ہیں،اور ہو رہے ہیں۔ یہ اتنا اہم نکتہ ہے کہ ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد یہ سیکھے کہ زبان کی حفاظت کیسے کرنی ہے اورحفاظتی طریقے کیا ہے؟زبان محفوظ تو دین محفوظ کیونکہ حفاظتِ زباں محفظِ ایمان ہے۔ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کے استعمال سے بخوبی واقف ہو کہ اسکی زبان کسی ایسی جگہ استعمال نہ ہو،جس سے کسی کی دل شکنی عیب جوئی ،حق تلفی ہو۔

آج بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ زبان کے صحیح استعمال کو فراموش کر چکا،اور برداشت کی کمی نے اسے اور بھی مشکل بنا ڈالا ہے زیادہ تر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بدلے میں دس سناکر تسکین پائے، اور اگر کوئی غلطی سےاس میں پیچھے رہ جاۓ ،تو وہ سارا سارا دن خود کو ملامت کرتا پھرتا ہے۔ کہ کاش اور کیوں، نہ ایسا کہہ ڈالاہوتا کہ جس سے اور مزا چکھایا جا سکتاتھا۔ طنز بازی ،تنقید، نکتہ چینی ،سخت لہجہ آج انسان کی زبان کا حصہ بنتی جا رہی ہے،جس کہ وجہ ہماری اپنے ‘دین اسلام’ کے احکامات سے بڑھتی ہوئی دوری ہے. پورے دین کا خلاصہ حفاظتِ زبان میں ہے۔ قطع نظر اس کے بے خبر اور انجان ہیں ہم کہ ہماری زبان سے جاری دو بول نے کسی کے دل پر کیا تلاطم برپا کر دیا ہے ؟

کسی کی اعتماد و یقین کے پہاڑ کو چکنا چور کر کے اسے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا؟ کسی کی امید چھینی تو کسی کا حوصلہ توڑا تو کسی کے خیال و احساسات کوخراب کر کے، اس کی نفسیات کو درہم برہم کر ڈالا ہے۔ تنقید بازی میں لوگ اتنی مہارت خاص رکھتے اور باعثِ فخر سمجھتے کہ انہیں معاشرے کی فکرِاصلاح ہے اور انکے فرائض میں شامل ہے اصلاح کریں پردھیان رہے اندازِ بیاں انداز تنقید نہ ہو کیونکہ اگر حق بات حق نیت اور حق طریقے سے کی جائے تو یقینا اثر رکھتی ہے۔ کسی آنکھ میں آنسو اور دل میں چبھن ہمارے کسی قول یا فعل سے نہ ہو ہر گھڑی اس کا دھیان رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ زبان اللہ کی ملکیت اور اس کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی اصل قدر یہ ہے کہ اسے اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کیا جاۓ، اور اس کی حفاظت کر کے اپنے ایمان کو بچایا جاۓ۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ” تیز زبانی ایک ایسا آلہ ہے جو استعمال سے گھس کر اور بھی تیز ہو جاتا ہے”. اگر ابتدا میں ہی اسے لگام نہ ڈالی، اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی تو یہ جہنم میں لے جا پھنکے گی۔ آج معاشرے میں زیادہ تر مسائل اور اخلاقی برائیاں زبان کے بےجا اورغلط استعمال کی پیداکردہ ہیں۔ جن کی وجہ سے گھر اور معاشرے کا امن خراب اور ایمان بھی خطرے میں ہے۔حضور اقدس ﷺنے زبان کو ہی سب سے بہترین شے زبان کو ہی سب سے بد ترین شے قرار دیا”. زبان میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی مگر پھر بھی یہ کچل ڈالتی ہے ۔اسی میں زہر بھی ہے، اسی میں مٹھاس بھی، یہ ہم پر منحصر ہے کہ کیسے استعمال کرتے ہیں۔۔؟

حفاظت زبان کا بہترین طریقہ خاموشی ہے۔۔ بہتر بولیں ورنہ بہترین خاموشی ہے ۔ حضرت لقمانؑ فرماتے ہیں “میں کبھی بھی اپنے خاموش رہنے پر نہیں پچھتایا جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا”۔ اللہ کے رسولﷺ سے سوال کیا گیا کہ نجات کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا “اپنی زبان کو بند رکھنا، اپنے گھر میں قیام رکھنا ،گناہوں پر نادم ہونا”۔ بے شک خاموشی میں عافیت ہے ورنہ ایسی بات بولی جائے جو خاموشی سے بڑھ کر ہو۔۔ زبان ہی انسان کو رسوا کرتی ہے، جو زبان پر نہ آۓ افسوس اور پچھتاوے سے بچ جاتی ہے۔۔ دونوں جہاں کی خیر و عافیت خاموشی میں پوشیدہ ہے و بے شک اللہ تعالی ہمارے خیال سے بھی واقف ہے مگرجو زباں سے کلمات ادا ہوجائیں وہ لکھ لیۓ جاتے ہیں۔ اور اگر توبہ نہ کی جائے تو بروز محشر ،وہ الفاظ بھی تو لے جانے والے ہیں، اللہ ہمیں زبان کا صحیح اور مثبت استعمال اور اس کی حفاظت کی فکرو توفیق عطا فرماۓ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں