بچہ چور لفنگے کیا قابل معافی ہیں؟ 217

حکم خداوندی سے راہ فرار اختیار کرتے ہم مسلمان

حکم خداوندی سے راہ فرار اختیار کرتے ہم مسلمان

دو دو تین تین شادیاں کرو اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا گمان ہو تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔ حکم قرآنی حکم قرآنی اور عمل خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم و خلافت راشدہ و صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے برخلاف، آج کا عاشق رسولﷺ اس حکم قرآنی کو ماننے سے پہلو تہی کرتا، بغلیں جھانکتا، ہزار ھیلے بہانے تلاش کرتا پھرتا ہے اور کہتا ہے اس زمانہ میں ایک سے زائد نساء سے نکاح کرکے، آن کے آپس میں انصاف کرنا آسان نہ رہا اس لئے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا وقت حالات کا تقاضا ہے۔ اور تو اور، عام دنیادار انسانوں میں سے کوئی ایک سے زائد شادی کرتا ہے

اور اپنی دو بیویوں کے درمیان انصاف کرنے کی پوری کوشش کرتا پایا بھی جاتا ہے تو، بعد موت انکے لئے لکھے جانے والے تعزیتی کلمات میں، وقت کے جید علماء کرام بھی، انکے دو بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرنے کا سوشا چھوڑ، ایک طرف مرحوم پر الزام بہتان تراشی و تہمت گڑھ اپنی عاقبت خراب کررہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف نفل اذکار و افعال سے دنیا میں رہتے، اپنے جنت محجوز کرنے اور دوزخ کو حرام قرار دینے والے،

اپنی بے تکی کوششوں کے درمیان، حکم قرآنی اور عمل رسول اللہﷺ خلفاء راشدین اور تقریبا صد فیصد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے، عمل کثرت زواج کوقائم کئے، صالح اسلامی معاشرہ کے سب سے بنیادی مشکل ترین عمل کو ، یہ وقت کے داعی ذمہ دارعلماء کرام اپنے قول و عمل سے جھٹلاتے ہوئے، معاشرے میں کثرت زواج کی افادیت کو دانستا” بے وقعت کررہے ہوتے ہیں۔

اسلامی معاشرے میں کثرت زواج رائج کرنے کے اسباب کیا تھے؟ اس پر بھی تو غور کیا جانا چاہئیے تھا۔ اس وقت کے عرب معاشرے میں جہاں بیٹیوں کی ولادت کو نحوست سمجھ زندہ درگور کیا جاتا تھا وہاں نساء کی کوئی عزت و توقیرئت نہ تھی۔ نساء کو صرف اپنی ہوس کی تسکین کی حد تک یا اپنی آل کے جاری و ساری رکھنے تولیدی مشین کی حد تک رکھا جاتا تھا۔عرب معاشرت میں نساء کو کوئی مقام تبریک نہ تھا۔ کثرت زواج کے پیچھے اسلامی معاشرہ کا بنیادی فلسفہ یہی تھا

کہ ایک طرف معاشرے میں نساء کو عزت و توقیریت ملے تو دوسری طرف کثرت زواج سے کنواری اور باکرہ نساء کا ہی ڈیمانڈ برقرار نہ ہو بلکہ معاشرہ کی مطلقہ اور بیوہ بھی مسلمانوں کے نکاح میں آتے ہوئے، انسان نما درندہ صفت حیوانوں سے وہ نہ صرف بچی رہیں بلکہ کسی نہ کسی کی زؤجیت میں آتے ہوئے اسلامی معاشرے کی شان بن سکیں۔ اور ہر کوئی نوجوان ناجائز ذریعہ کے بجائے جائز ذرئع سے اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرتا پایا جاسکے۔

ثانیا فی زمانہ ایک ہی بیوی کا زن مرید بن جینے کا رجحان جو چل نکلا ہے، اگر کسی کی قسمت سے، اسے اچھی بیوی، با کردار شریک حیات ملی تو الحمدللہ، بصورت دیگر وہ باصلاحیت سے باصلاحیت انسان گھر میں سکون کے فقدان کے سبب ،چڑچڑے مزاج کا مالک بن، اپنی معشیتی زندگی میں بھی ایک حد ناکام بنا جی رہا ہوتا ہے۔ فی زمانہ کون انسان خوبصورت سے خوبصورت، باصلاحیت نساء کو اپنی زوجیت میں لانے کا متلاشی نہیں ہوگا؟ اور چونکہ اسے زمانہ کے اقدار کے چلتے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا ہے اسے اسکا پکا یقین رہتے، اس کی کوشش ہمہ وقت یہی رہتی ہے

کہ گوکہ کہ وہ تمام تر نقائص کے ساتھ بھلے ہی لنگور جیسا کیوں نہ ہو، اسے حسین تر اور باصلاحیت شریک حیات مل پائے،اس کی یہی کوشش رہتی ہے اور جوڑ توڑ انتہا حد تک کی جاتی ہے اور چونکہ فی زمانہ آج کی صنف نازک بھی، خود مختاری عزت نفس والی آزادی حق گوئی کی دلدادہ، عصری علوم حاصل کئے ہوتی ہیں اسلئے لنگور و حور کی بنتی جوڑیاں بنتے بنتے یا کچھ ہی دنوں مہینوں بعد بکھر جایا کرتی ہیں۔اگر آج بھی آج کے مسلم معاشرے میں، اسلامی اقدار والے کثرت زواج سنت کو ہم زندہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو دوسری تیسری چوتھی شادی ہی کے لئے، مطلقہ یا بیوہ کسی نہ کسی کے نکاح میں آتے ہوئے، مسلم معاشرے میں پنپتی جنسی بے راہ روی پر قدرے روک لگ پائے گی۔اور کثرت زواج کی وجہ نساء کی مانگ کے چلتے بھی جہیز دینے مال و ثروت نہ ہونے کے سبب ڈھلتی عمر تک بچیوں کو گھروں میں بیٹھنے کی نوبت ہی نہیں آئیگی اور مسلم بچیوں کے غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ پیار و محبت والی شادی رچا اپنا ایمان دھرم داؤپر لگانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

آج کے ہم مسلمان نفل ذکر و اذکار حتی کہ کھانے پینے سونے کے طریقت رسول اکرمﷺ کے متلاشی پائے جاتے، اپنے آپ کو پکے سچے عاشق رسولﷺکہلاتے پائے جاتے ہیں لیکن حضور پرنور محمد مصطفیﷺ نے خود بیواؤں مطلقاؤں سے کثرت زواج کر،جس کبیرہ گناہ زنا و لواطت سے پاک صالح اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالی تھی، اسی اسلامی معاشرے کا اصل سبب کثرت زواج سے خود پہلو تہی کرتے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کے موضوع کو غیر ضروری طور،حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے، کثرت زواج جیسے اہم حکم قرآنی کے خلاف خود ہمارے علماء و زعماء ہی صف بند پائے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں