افواجِ پاکستان کی خدمات اور قائد اعظم کی ہدایات
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ پاکستان اور اہلیان پاکستان کی ہر طرح سے اور ہر طرف سے حفاظت فرمائے۔ہمسایہ ملک کی طرف سے ہونے والی مسلح جارحیت اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی انتہائی قابل مذمت ہے۔آج پوری قوم کی نظریں اپنے محافظین پر لگی ہوئی ہیں۔ پوری قوم کو اپنی افواج پر اور افواج کو اپنی قوم پر مکمل اعتماد کی ضرورت ہے۔اسی اعتماد کے بل بوتے ہمیں متحد ہو کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آگے بڑھنا ہو گا اور اپنے پیارے وطن کے دفاع کے لیے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے، اس کی سرحدیں بھی ایک اسلامی سلطنت کی سرحدیں ہیں اور ان سرحدوں کے رکھوالے درحقیقت اسلامی جغرافیائی سرحدات کے محافظ ہیں۔یہی وہ امتیاز ہے جو افواج پاکستان کو دیگر ممالک کی افواج پر حاصل ہے کہ یہ ملک کے محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی سپاہی ہیں۔
قوم کے محافظ اور وفادار:
افواج پاکستان حالت امن اور حالت جنگ دونوں میں اہلیان پاکستان کا محافظ اور وفادار طبقہ ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جو ملک کی تعمیر و ترقی ، اس کی حفاظت ، قانون کی پاسداری ، قدرتی مصائب میں رضاکارانہ خدمات ، امن عامہ کی بحالی، تعمیراتی پرو گرام میں شمولیت ، طبی سہولتوں کی فراہمی، تعلیمی میدان میں عملی خدمات اور مشترکہ اسلامی ممالک کی عسکری قیادت تک تمام امور میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے۔
آئین پاکستان کی دفعہ 244:
افواج پاکستان کا ہر فوجی جوان آئین پاکستان کی دفعہ 244 کے تحت یہ حلف اٹھاتا ہے کہ ’’میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی و وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حمایت کروں گا …میں قانون کے تقاضوں کے مطابق اور ان کے تحت پاکستان کی بری فوج(یا بحریہ یا فضائیہ)میں پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ سرانجام دوں گا۔ ‘‘
افواجِ پاکستان کا رضاکارانہ کردار:
پاکستان کا ہر شخص بلکہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے توسط سے دنیا بھر کے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جب کبھی وطن عزیز پاکستان میں قدرتی مصائب آئے ہیں: سیلاب ، سمندری طوفان یا زلزلے وغیرہ تو ایسے مشکل حالات میں پاک فوج کے جوان جذبہ احترام انسانیت کے پیش نظر اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لیے جان ہتھیلی پر لیے میدان میں آئے اور لٹے پٹے لوگوں کی آبادکاری کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے۔
افواجِ پاکستان کا تعمیر وطن میں حصہ:
آپ بلوچستان ، گلگت ، آزاد کشمیر ، چترال اور ملک کے دیگر علاقوں میں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے پاک فوج کے جوانو نے شاہرات، مواصلاتی نظام اور ڈیمز تعمیر کیے ہیں۔ شاہراہ قراقرم اور شاہراہ ریشم ، بلوچستان میں ولی تنگی ڈیم ، کیہان ڈیم وغیرہ افواج پاکستان کی مرہون منت ہیں۔
افواجِ پاکستان کی تعلیمی سرگرمیاں:
اس کے ساتھ ساتھ فوجی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ملک میں تعلیمی اداروں کے جال بچھائے ہیں، جن میں نیشنل ڈیفنس کالج، پاکستان ملٹری اکیڈمی، ملٹری کالج آف انجینئرنگ ، کالج آف آرمی ایجوکیشن ، ای ایم ای کالج ، ملٹری کالج آف سگنلز ، آرمڈ فورسز میڈیکل کالج اور متعدد کیڈٹ کالجز شامل ہیں۔
افواجِ پاکستان کی رفاہی خدمات:
عوام کے علاج معالجہ کے لیے جدید طبی سہولیات سے آراستہ بڑے بڑے ہسپتال قائم کیے ہیں۔ اسی طرح آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر انتظام ہاؤسنگ سکیمیں ،جوتیوں اور اْون کے کارخانے اور عسکری بنک وغیرہ جیسے ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نیشنل لاجسٹک سیل جیسا فوجی ادارہ میں ذرائع نقل و حمل میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
افواجِ پاکستان اور اسلامی ممالک:
برادر اسلامی ممالک سے عمدہ تعلقات استوار کرنے اور مشترکہ فوجی تربیتی مشقیں کرنے کی غرض سے افواج پاکستان کو بیرون ممالک بھیجا گیا جن میں سعودی عرب ، کویت ، لیبیااور عرب امارات شامل ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے تحت قیام امن کے مقاصد کے لیے افواج پاکستان کو کمبوڈیا، صومالیہ ، بوسنیا اور سلوانیا جیسے ممالک میں بھیجا گیا اس مشن میں پاک فوج کے انسانی ہمدردی کے جذبے کی بدولت اقوام عالم میں پاکستانی قوم کی عزت میں اضافہ ہوا۔
افواجِ پاکستان کا جذبہ حب الوطنی:
ان سب کے باوجود افواج پاکستان جیسے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اس سے کہیں بڑھ کر اپنے وطن کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ جب کبھی دشمنانان پاکستان نے ناپاک نظروں اور برے ارادوں سے پاکستان کو دیکھا یا اس کی طرف پیش قدمی کی ہے یا اسے کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے لیے اس کی جغرافیائی سرحدات پر حملہ آور ہوئے تو افواج پاکستان ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ملک کے چپے چپے کی حفاظت کی ہے۔
افواج پاکستان کو قائد اعظم کی ہدایات:
افواج پاکستان کے سپہ سالار اور سپاہیوں کو اس موقع پر قائد اعظم کی وہ ہدایات بھی پیش نظر رکھنی ہوں گی جو انہوں نے مختلف مقامات پر پاک فوج کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی تھیں۔
21 فروری 1948ء کو ملیر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے پاکستان کی آزادی کی جنگ جیت لی ہے لیکن آزادی کی حفاظت اور ملک کو زیادہ ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر تعمیر کرنے کی دشوار تر جنگ ابھی جاری ہے اور اگر ہمیں ایک عظیم قوم بن کر زندہ رہنا ہے تو یہ جنگ اس وقت تک لڑنی پڑے گی کہ ہم فتح سے ہمکنار ہو جائیں۔ قدرت کا اٹل قانون ہے کہ وہی زندہ رہے گا جو زندہ رہنے کا سب سے زیادہ اہل ہے۔ اب آپ کو اپنی سرزمین کا محافظ بننا ہے تاکہ یہاں اسلامی جمہوریت ، اسلامی سماجی انصاف اور انسانی مساوات قائم ہو اور نشوونما پاسکے۔آپ کو چوکس رہنا ہے بہت ہی چوکس۔‘‘
اکتوبر 1947ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آپ کا خمیر فولادی قوتوں سے اٹھا ہے اور ہمت کے معاملے میں دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ہے پھر آپ آخر دوسروں کی طرح کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے خاص طور پر اپنے آباؤ و اجداد کی طرح کامیابی؟آپ کو اپنی ذات میں فقط مجاہدوں کی سی سپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت ہے آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ حیرت انگیز طور پر بلند کردار ، بلند حوصلہ ، شجاع اور اولوالعزم ہستیوں سے بھری پڑی ہے اپنی روایات کی رسی مضبوطی سے تھام لیجیے اور اپنی تاریخ میں شان و شوکت کے ایک باب کا اضافہ کیجیے۔ ‘‘
11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھے اچھی طرح احساس ہے کہ آپ میں سے اکثر کو جنگ کے زمانے میں شدید اعصابی دباؤ کی کیفیت سے سابقہ رہا ہے اور اب آپ کو کچھ سکون ہے لیکن مت بھولیے کہ ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ہمارے لیے تو جنگ اب شروع ہوئی ہے اگر ہمیں اس میں فتح یاب ہونا ہے تو فوق الانسانی محنت سے کام کرنا ہوگا ، یہ وقت ذاتی فائدوں اور ترقیوں کی فکر اور جاہ و منصب کی دوڑ کا نہیں یہ وقت ہے تعمیری جدوجہد کا ، بے لوث کام کا اور ادائے فرض کی مسلسل لگن کا۔ ‘‘
23 جنوری 1948ء ایچ۔
ایم۔پی۔ایس دلاور کے عملے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’پاکستان حال ہی میں انجمن اقوام متحدہ کا رکن بنا ہے وہ اس ادارے کو طاقت ور بنانے اور اس کے نصب العین کے حصول میں ہاتھ بٹانے کے لیے وہ سب کچھ کرے گا جو اس کے بس میں ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور میں شامل اصولوں کی بھرپور تائید کرتے ہیں لیکن اپنے دفاع کے تقاضوں سے غافل رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ تنظیم اقوام متحدہ کتنی ہی طاقتور ہو جائے لیکن اپنے ملک کے دفاع کی اصل ذمہ داری ہمیں پر رہے گی …یاد رکھیے !آپ میں سے ہر ایک نے ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ‘‘
13 اپریل 1948ء کو پاکستان آرمرڈ کور سنٹر نوشہرہ کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’جماعت کی حمیت و عزت کا دامن کبھی نہ چھوڑئیے۔ یعنی اپنی رجمنٹ پر فخر، کور پر فخر ، اپنے ملک پاکستان پر فخر اور اس کے لیے سچی لگن۔ پاکستان آپ کے بَل پر قائم ہے اور آپ پر ملک کے محافظوں کی حیثیت سے پورا اعتماد رکھتا ہے۔ اس اعتماد کے لائق بنیے۔ یہ فوج آپ کے آباؤ و اجداد ہی کی دلیری اور تندہی کی بدولت پروان چڑھی اور نیک نام ہوئی ہے۔ عزم کیجیے کہ آپ اس کے قابل فخر فرزند بنیں گے…مجھے اس میں قطعی شبہ نہیں کہ آپ کو کیسی ہی پرخطر ذمہ داری سونپی جائے آپ اس کے لیے ہمیشہ مستعد رہیں گے۔‘‘
15 اپریل 1948ء کو 15/2پنجاب مشین گن رجمنٹ پشاور کو نشان عطا کرتے ہوئے فرمایا:’’میں چاہتا ہوں کہ آپ ان بلند مقاصد پر پورے اتریں جن کے لیے آپ نے ازسر نواپنے آپ کو وقف کیا ہے یعنی پاکستان کی خدمت اور کمزوروں کی حفاظت و حمایت کے فریضے اور اپنے شہید ساتھیوں کی یاد تازہ رکھنے میں بھرپور حصہ لیں اور اس طرح اسلام کی عظمت و شان کو فروغ دیں۔ ‘‘
14 جون 1948ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آپ اور پاکستان کی دوسری افواج پاکستانی قوم کی جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ ہیں دفاعی افواج؛ پاکستان کی دوسری تمام سروسوں سے زیادہ اہم ہیں اسی نسبت سے آپ کی ذمہ داری بھی بہت گراں بار ہے۔ ‘‘
ہمسایہ ملک کی طرف سے جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔اس حوالے سے اپنے فوجی جوانوں سے چند باتیں عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں:
ایمان کی مضبوطی:
قرآن کریم کی متعدد آیات اور بکثرت احادیث مبارکہ میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات و صفات پر ایمان ، اس کی مدد ونصرت پر یقین ہی اسلام کے سپاہی کا طرہ امتیاز ہے۔
آیات و احادیث قتال کی تلاوت :
آیات و احادیث قتال فی سبیل اللہ کی تلاوت اور اس کے معانی و مفاہیم میں غور وخوض کرنے سے جذبہ سرفروشی پیدا ہوتا ہے۔
عبادات کی پابندی:
میرے فوجی بھائیو!آپ نے جس میدان کا انتخاب کیا ہے یہ تو شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ نامعلوم کب جان جان آفریں کے سپرد کرنے پڑے اس لیے دنیاوی غفلتوں اور دھوکے کا شکار ہونے سے اپنی حفاظت کرو اور خدائے بزرگ و برتر کی عبادات میں خودکو کھپادو۔ بالخصوص نماز کی پابندی کی کوشش کرو اور مسنون اعمال کے مطابق زندگی گزارو اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔
فکر آخرت کا استحضار:
ہر مسلمان جن بنیادی عقائد اپنانے سے صحیح معنوں میں مسلمان کہلانے کا مستحق ٹھہرتا ہے ان میں ایک عقیدہ آخرت بھی ہے۔ یوم جزا و سزا پر یقین رکھتے ہوئے اس کی تیاری کریں ، اللہ کے حضور سرخرو ہونے کے لیے گناہوں والی زندگی سے دور رہا جائے۔
اطاعت امیر اور استقامت :
عام حالات کے مقابلے میں جنگی حالات میں اطاعت امیر کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے اس کا پورا اہتمام کیا جائے اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے فریضہ کو انجام دیا جائے۔
باہمی تنازعات سے بچیں:
جن غلطیوں سے دشمن کے دلوں سے ہیبت،دبدبہ اور رعب ختم ہوتا ہے ان میں ایک باہمی تنازعات میں الجھنا اور آپسی بداعتمادی کا ہونا بھی ہے۔ اس لیے باہم شیروشکر ہو کر رہنے میں اللہ کی مدد ونصرت کا وعدہ پورا ہوتا ہے۔
منفی پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہوں:
پوری پاکستانی قوم آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ان حالات میں ملک دشمن لوگ بعض طبقوں کوآپ کے خلاف ابھارنے میں مسلسل مصروف عمل ہیں لیکن یہ قوم اپنے محافظوں اور محسنوں کو قطعاً فراموش کرنے والی نہیں۔
قوم سے گزارش:
پوری پاکستانی قوم سے گزارش کرتا ہوں کہ ان حالات میں ہم سب کو رجوع الی اللہ اور استغفار کی کثرت کرنی چاہیے،اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے،علاقائی ، گروہی ، نسلی ،سیاسی اور مذہبی اختلافات سے خود کو بچانا چاہیے،آنے والے ممکنہ خطرات کے بارے تدابیر اختیار کرنی چاہیے،اپنی افواج اور عسکری قیادت پر بھرپور اعتماد کرنا چاہیے،اپنی تمام تر صلاحیتیں وطن عزیز کے دفاع میں خرچ کرنی چاہیے،سوشل میڈیا کا درست اور محتاط استعمال کرنا چاہیے، منفی تبصروں اور حوصلہ شکن تجزیوں سے گریز کرنا چاہیے،دعاؤں کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت پاکستان اور تمام اسلامی ممالک کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ سید الصادقین صلی اللہ علیہ وسلم