شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 105

بند گلی میں متبادل راستے کی تلاش!

بند گلی میں متبادل راستے کی تلاش!

تحریر:شاہد ندیم احمد
اپوزیشن اتحاد قائم ہوئے بمشکل پانچ ماہ ہی گزرے ہیںکہ اپنے اہداف کے قریب نہ پہنچنے کے باعث بکھرنا شروع ہوگیاہے۔مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں لانگ ما رچ اورا جتماعی استعفوں کے ذریعے حکومت کی رخصتی کی منزل ابھی بہت دور ہے، لیکن پی ڈی ایم کے غنچے بن کھلے ہی مرجھا نے لگے ہیں۔ پی ڈی ایم میں اختلاف رائے بڑھنے لگا ہے ، بلاول بھٹو اور ان کے والد آصف علی زرداری نے نیا شوشہ چھوڑہے کہ حکومت کے خلاف استعفوں اور لانگ مارچ کی بجائے وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سمیت کئی حکومتی وزرانے پیپلز پارٹی کی نئی حکمت عملی کا خیرمقد م کررہے ہیں ۔ شیخ رشید کا تو کہنا ہے کہ بلاول بھٹو ان کا مشورہ مان کر راہ راست پر آ گئے ہیں،

اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پڑنے پر حکومت خوش ہے،جبکہ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے نوازشریف اور آصف زرداری کے رابطے میں تیزی آگئی ہے، مولانا فضل الرحمان نے آصف زرداری سے شکوہ کیا ہے کہ پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر تحریک عدم اعتماد کا بیانیہ کیوں دیا گیا، تمام فیصلے مشاورت سے کرنے پر اتفاق کے بعد ایسے بیانات سے گریز کیا جانا چاہیے تھا، آصف علی زردار ی کا کہنا ہے کہ انہوں نے استعفوں اور لانگ مارچ پر یوٹرن نہیں لیا، حکمت عملی تبدیل کی ہے،سینٹ الیکشن سے پہلے استعفے دینے کا حکومت کو فائدہ ہے،

ادھر مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نواز شریف نے عدم اعتماد کی تحریک کی تجویز کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی تجاویز کا مقصد حکومت کو دوام بخشنا ہے ،اس پر(ن) لیگ کبھی حمایت نہیں کرے گی ۔اپوزیشن کے عدم تعاون کے با وجود حکومت اپنی نصف مدت پو ری کر چکی ہے اور اپنی بے تدبیریوں کے باوجو د فی الحال کہیں جاتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے،جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے توپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اکٹھی ہو بھی جائیں تو بظاہر نمبر پورے نہیں ہوں گے، یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ (ق)،ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اکٹھے ہو کر اپوزیشن کے ساتھ مل جائیںتو بات بن سکتی ہے ،مگروہ ایسا کیونکر کریں گے، وہ سب اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے ہی حکومت کے حلیف بنے ہیں

۔اس سے پہلے (ن) لیگ سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین بھی منتخب نہیں کر اسکی تھی۔ آصف علی زرداری اگلے چھ ماہ بہت اہم قرار دیتے ہوئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کے گرد گھیر اتنگ کرنے کی باتیں کررہے ہیں،اگر پی ڈی ایم سے واقعی اتنے مخلص ہیں تو تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑنے سے پہلے پی ڈی ایم اجلاس میں سیر حاصل بحث کر لیتے تو کم از کم اپوزیشن اتحاد کی ہنڈیابیچ چورا ہے نہ پھوٹتی،اس کے بعد کیا پی ڈی ایم اتحاد ٹوٹ جائے گا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ زرداری اور بلاول ایک بار پھر اپنے کیسز اور سندھ حکومت کی

خاطرگندی سیاست کا مظاہرہ کرنے کے باوجود پی ڈی ایم سے نکلنا نہیں چاہیں گے، کیونکہ انہیں احساس ہے کہ اگر انہیں اب ڈھیل مل گئی ہے تو یہ پی ڈی ایم کی برکت سے ہے اور اگر وہ الگ ہوگئے تو انہیں دوبارہ مار پڑے گی۔مسلم لیگ (ن) بھی کبھی پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم ا تحاد سے الگ کرنا نہیںچاہے گی ،کیونکہ مسلم لیگ (ن) بھی وہی کررہی ہے جو پیپلز پارٹی کررہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور قوم پرست جماعتوں کی دل شکنی ضرور ہوئی ،لیکن مولانا بھی پیپلز پارٹی کو الوداع نہیں کہنا چاہیں گے ،کیو نکہ مولانا اور قوم پرست جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کو نکالنے کی وجہ سے بارگیننگ پوزیشن مزید کمزور ہوگی اور حکومت اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی

،پی ڈی ایم اب بھی بطور سیاسی اتحاد کے برقرار رہے گا ،لیکن اس کے غبارے سے بڑی حد تک ہو انکل چکی ہے ،حالا نکہ پی ڈی ایم بنانے کے لئے اے پی سی پیپلز پارٹی نے ہی بلائی تھی، لیکن اپنے بنائے ہوئے اتحاد پر بارگیننگ کے ذریعے ہوا نکالنے کا فریضہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے خود ہی سرانجام دیا ہے۔اس حوالے سے پی ڈی ایم کی باقی قیادت بھی بری الذمہ نہیں ، کیونکہ وہ بھی ا پنے بیانیہ اور حکمت عملی میں ہم آہنگی لائے بغیر ایک بڑے دعوے کے ساتھ میدان میں نکل آئے تھے ،اگر مقتدر حلقے عمران خان کو بوجھ سمجھنے بھی لگے تھے تو پی ڈی ایم قیادت کے غیرزمہ دارنہ رویئے نے دوبارہ عمران خان سے بغلگیر رہنے پر مجبور کردیا ہے۔پی ڈی ایم جتنا مر ضی یقین دلانے کی

کو شش کرے کہ اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر متحد ہے ،مگرپی ڈی ایم متزاد بیانیہ کے باعث آسمان سے زمین پر آن پڑی ہے ، ایک طرف پی ڈی ایم جماعتیں وکٹ کے دونو جانب کھیلتے ہوئے بیک ڈور رابطوں سے انکاری ہیںتودوسری طرف مقتدر قوتوں سے مفاہمتت کی راہیں بھی تلاش کی جارہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی عدم اعتماد کا شوشہ صرف اپنی خفت مٹانے کے لئے چھوڑا ہے، پیپلز پارٹی قیادت کوببخوبی اندازہ ہے کہ (ن )لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کبھی عدم اعتماد کے گناہ بے لذت کے حصہ دار نہیں بننا چاہیں گے ،اس لیے جب سب ہی غیرسنجیدہ ہوں گے

تو کہاں کا عدم اعتماد اور کیسا عدم اعتماد،تحریک عدم اعتماد بھی استعفوں کی طرح بہت جلد ہوا میں تحلیل ہو نے والی ہے،عوام پی ڈی ایم قیادت کے متزاد بیانئے کے باعث اچھی طرح جان چکے ہیں کہ یہ عوام کے خیر خواہ نہیں ،یہ صرف اپنی کر پشن کی دولت کے ساتھ خود کوبچانے کیلئے واویلا کیا جارہا ہے،در اصل اس وقت پی ڈی ایم بند گلی میں فیس سیونگ کی تلاش میں در بدرہے ،اگر انہیں کہیں سے خاموش این آر او کی امید ہو جائے تو آخری سانس لیتی حکومت مخالف تحریک خود بخود ختم ہو جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں