صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ 121

” چکوال ادب کاابھرتا ستارہ”

” چکوال ادب کاابھرتا ستارہ”

تحریر: شہزادافق
ضلع چکوال پنجاب کا اہم ترین ضلع ہے ،چکوال کا علاقہ محل وقوع کے اعتبار سے شمالی حصے کی طرف سے ضلع راولپنڈی،جنوبی سطح پر ضلع جہلم،مشرقی اعتبار سے خوشاب اورمغربی سرحد میانوالی سے ملتا ہے۔ کل رقبہ 6609کلومیٹر اور1652443ایکٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ جنوبی حصے میں زیادہ تر پہاڑی سلسلہ واقع ہے اور سطح سمندر سے 3701فٹ کی بلندی پر ہے جبکہ شمال میں زیادہ حصہ دریا سواں کے قریب واقع ہے۔ چکوال میں پہاڑی سلسلہ کے ساتھ ساتھ ایک بارانی علاقہ ہے اس لیے یہاں پر کاشتکاری میں بارش کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ زیادہ تر لوگ دیہی علاقے میں آباد ہیں۔ چکوال ایک تاریخی علاقہ ہے اور پاکستان کے قیام سے قبل یہاں پر ہندو’سکھ اور مسیحی قومیں آباد تھیں

جن میں اکثریت ہندوؤں اور سکھوں کی تھی۔1947میں پاکستان کے قیام کے بعد یہ قومیں بھارت کو ہجرت کرگئیں جبکہ بھارت سے آنے والے مسلمان یہاں پر آباد ہوئے۔1947ء سے قبل انگریزوں کے دور حکومت میں چکوال ضلع جہلم کی تحصیل ہوتی تھی۔1891میں اعدادو شمار کے مطابق اس کی آبادی کی کل تعداد 164,912تھی۔ تحصیل چوآ سیدن شاہ کے کہار روڈ کے قریب 3000قبل کاتیس راج ہوا کرتا تھا جس کے چند ایک آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ ہندوراج کے علاوہ وہاں سے 3کلو میٹر دور دھمیال بھی واقع ہے جو 1920میں بھی تمام افراد کے لیے اس حوالے سے ایک اہم جگہ تھی کہ یہاں پر تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو روز گار کی تلاش کے لیے آنا پڑتا تھا اور انگریز فوج کا قیام بھی یہیں پر تھا۔
اگر چکوال ادب کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو ان کامیں دانشور،شاعر،صحافی،کالم نگار،پروفیسرز سمیت ایک لمبی فہرست بنتی ہےجن میں کرنل محمدخان،پروفیسر باغ حسین کمال ،آفتاب ملک خیرپوری،محمدکعب شریف،راجہ محمدلطیف کھنوال ،حاجی گل بہارآصی،عبدالرشیدمرزا،نرگس نسیم،اقبال فیروز،ملک صفی الدین صفی،ناصرساقی،حسین اختر،نورزمان ناوک ، پروفیسرسیداقبال حسین شاہ،پروفیسر کامران کاظمی،بشیرجعفر،سیدمنظور حیدر شاہ،محمداکرم ضیائ،حکیم لال حسین صابر،پروفیسرانوربیگ اعوان
،ملک اشرف ذکی ،

تابش کمال،پروفیسر ارشدمحمود،مصورمنیراحمد،خواجہ دانیال سلیم،ڈاکٹرمحمداعظم سمور،خواجہ محمدبابرسلیم محمود(تغمہ امتیاز)،مولانا محمودالحسن غضنفر،ملک سہیل اعوان،ممتارالحق،پروفیسرڈاکٹرتصدق حسین،جاویداقبال شاعرموٹروے،عباس منہاس،قمراقبال صوفی، سکوارڈن لیڈر(ر)غلام عباس،ناطق جعفری،پروفیسرمحمدجان ہستال،منورعزیز،پیرزادہ نورعلی کشکوری،وقارخان،عظمت شہزادعظمی، محمدخان منہاس،باقروسیم قاضی ،احسان الہی احسان،محمداسلم ایوب،پروفیسرمحموداللہ ہاشمی،جنرل (ر)عبدالمجیدملک،مرزااحمدنورطائر ،ڈاکٹر افتخارحسین کھوکھر،اورنمرہ ملک سمیت ان گنت لوگ شامل ہیںادبی خدمات میں ایک نام ایسا بھی ہے ،جس نے پچھلے دوسالوں میںدن رات بے لوث ادبی خدمات کا کام سرانجام دیا، اوراپنے علاقے کا نام روشن کیا ،نئے لکھنے والوں کے لئے امید کی راہ بنائی خود کو شمع کی مانند جلا کر دوسروں کو تاریکی میں راستہ دکھایا۔

جن کا ایک رسالہ” ماہنامہ کامل” کے نام سے پچھلے چند ماہ سے باقائدہ اشاعت ہورہا ہے ،جن میںنئے لکھنے والوں کو موقع دیا جاتا ہے ان کی اصلاح کی جاتی ہے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کارلا یا جاتا ہے۔یہ سب کاوش ایک ہی شخص کی ہے جن کانام ہے میمونہ ارم (مونشاہ )ہے ۔مونشاہ ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے ۔گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔جن کی تحریریں پاکستانی قومی ومقامی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔جن میں ہمیشہ کچھ نئے اورمنفردپڑھنے کو ملتا ہے۔مونشاہ ہمیشہ سے بے ساختہ لکھنے کی عادی ہیں۔اور ان کی ہر تحریر میں ایک سبق ضرور ہوتا ہے ۔اورایک اچھے لکھاری کی یہی پہچان ہوتی ہے۔اورحیرت کی بات یہ بھی ہے کہ مونشاہ کے خاندان میں کسی بھی فرد کی ادب سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔

مونشاہ نے پچھلے ایک دوسال سے باقائدہ لکھنا شروع کیا اور اپنی محنت سے اپنا ایک مقام حاصل کیا ۔حال ہی میں مونشاہ کی تصنیف” میں ایسی ہی ہوں” اشاعت ہوئی .۔ مونشاہ نے اپنی صلاحیتوں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی علمی اورادبی کاوش سے یہ بہترین تصنیف ”میں ایسی ہی ہوں” کا تحفہ اپنے پڑھنے والوں تک پہنچایا ،یہ ان کی ایک قابل تعریف کاوش ہے اور ان کے تخیل کی بہترین عکاسی ہے اس تصنیف میں تسلسل اس قدردلکش اور سبق آموز ہے کہ پڑھنے والوںکو اپنی گرفت میں جھکڑے رکھتاہے۔ پڑھتے وقت ایسا سحر طاری ہوجاتا ہے ۔کہ اسے مکمل کیے بنا چھوڑنے کو دل ہی نہیں کرتا ۔

یہ تصنیف اس قدر جاندار ہے ۔کہ لفظ لفظ اپنی تاثیر پڑھنے والوں کے دل ودماغ پر چھوڑتا ہے۔مونشاہ کو ادبی حلقوں اورخصوصا نوجوان نسل ( فی میل طبقہ ) میںبے حد مقبولیت حاصل ہے ،ان کی ہرتحریر کو سبق آموز سمجھ کو لازم پڑھا جاتا ہے، کہ کچھ نئے پڑھنے اور سیکھنے کو ملے گا ۔ مونشاہ ایک نڈر باہمت لڑکی ہے، جس نے حالات کامقابلہ ہمیشہ دیدہ دلیری سے کیا ہے ۔اوریہ صلاحتیں اُسے وراثت میں اپنے باپ سے ملی ہیں ان کے والد عبدالمجید(مرحوم) افواج پاکستان کا حصہ تھے۔ 15سال قبل خالق کائنات سے جا ملے ۔مونشاہ نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں حق سچ کا الم بلند کی کوشش کی ہے ۔میری یہ دعا ہے خالق کائنات سے کہ میمونہ ارم (مونشاہ)کو جہاد قلم کے ساتھ ہمیشہ ثابت قدمی رہنے کی توفیق عطاء کرے ۔آمین ۔۔۔بانی وسربراہ ،ــ”انٹرنیشنل رائٹرزفورم پاکستان”،ایڈیٹرانچیف ”ماہنامہ افکارافق انٹرنیشنل”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں