خوشخبری مہنگائ کم ہو گئ ہے 164

خوشخبری مہنگائ کم ہو گئ ہے

خوشخبری مہنگائ کم ہو گئ ہے

تحریر۔حمادرضا
پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں یہ مشترکہ رواج ہے کہ جب نئ نویلی دلہن کو بیاہ کے گھر لایا جاتا ہے تو چند روز اس کی خوب خاطر مدارت کی جاتی ہے اور خوب ناز نخرے بھی اٹھاۓ جاتے ہیں پھر دھیرے دھیرے بہو کو میٹھا پکوانے کے بہانے باورچی خانے میں داخل کیا جاتا ہے اور پھر چند روز اور گزرنے کے بعد پورے باورچی خانے کی ذمہ داری بہو پر ڈال کر یہ تاریخی ڈائیلاگ بولا جاتا ہے کہ بہو آج سے یہ گھر تمہارا ہی ہے اور اگر بہو حقیقت میں یہ ڈیمانڈ کر دے کہ اگر واقعی یہ گھر میرا ہے تو لائیں اس کے کاغذات بھی مجھے سونپ دیں تو ذرہ ایک پل کے لیے سوچیں کہ کیا ہو؟ یہ قصہ شائد میں نے کہیں پڑھا تھا اسے یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کے بقول ان کے دورِ حکومت میں مہنگائ کی

شرح میں نمایاں کمی ہوئ ہے کوئ وزیرِ اعظم جناب عمران خان کو یہ بتلاۓ کہ جس طرح ساس کے کہنے سے گھر بہو کا نہیں ہو جاتا اسی طرح آپ کے صرف کہہ دینے سے مہنگائ میں کمی واقع نہیں ہو جاۓ گی البتہ اسے آپ ایک گھٹیا حکومتی سٹنٹ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف آپ چیزوں میں اضافہ کرتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کا دھیان بٹانے کے لیے ایسے بیانات دیتے نظر آتے ہیں کہ مجھے عوام کی بڑی فکر ہے دوسری بات یہ کہ وزیرِ اعظم صاحب نے اپنی رعایا پے ایک اور احسان عظیم کیا ہے کہ آپ مجھ سے براہِ راست سوال جواب کر سکتے ہیں

جس کے لیے ایک نمبر بھی متعارف کروا دیا گیا تھا کیا ا س نمبر پے بات کرنے سے عام آدمی کے مسائل حل ہوگیے تھے ؟ کیا بجلی کی بڑھتی ہوئ قیمت نیچے آجاۓ گی بالکل بھی نہیں اسے اگر آپ بغیر کچھ کیے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی بھونڈی حرکت کہیں تو غلط نا ہو گا سوشل میڈیا پر لوگ وزیرِ اعظم کی اس خبر کو لے کر ٹھٹے اڑاتے نظر آرہے ہیں عمران خان صاحب سبز باغ دیکھانے کے بادشاہ ہیں جو صرف الفاظوں سے محلات تعمیر کر سکتے ہیں وہ خود کو انیل کپور کی مشہور زمانہ فلم نائیک کا کردار سمجھ رہے ہیں جس میں انیل کپور امریش پوری کا چیلنج قبول کر کے چیف منسٹر بن جاتا ہے اور فون پر لوگوں کے مسائل سنتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ایک عام خریدار جب بازار کا رخ کرتا ہے

تو اسے گزشتہ ماہ کی نسبت ہر چیز میں قیمت کی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تبدیلی سے مراد یہاں قیمت کا بڑھا ہوا ہونا ہے جس کی وجہ سے ایک غریب آدمی اپنی چیزوں کی مقدار گھٹانے پر مجبور ہو جاتا ہے دوائیوں اور بجلی کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں ان سے کون واقف نہیں اوپر سے حکومت کے اس طرح کے بیانات عوام کے زخم کریدنے کے مترادف ہیں افراطِ زر اوپر ہو یا نیچے عوام کو ا س سے سروکار نہیں ہوتا انہیں سروکار ہے تو عملی اقدامات سے جب انہیں واقعتاً چیزیں سستی ملیں گی جبکہ وزیر اعظم صاحب عوام کو شدید دھوپ میں ٹھنڈا چشمہ لگوا کر سردی کا مصنوعی ماحول پیدا کرنے چاہتے ہیں اس طرح کے بیانات سے مہنگائ تو کم نہیں ہونے والی ہاں حکومتی ساکھ ضرور متاثر ہو رہی ہے اور عوام کے حالات بقول شاعر یہ ہیں

پہلے ہی حالات کے ستاۓ ہوۓ تھے
حکومتی دلاسے ہمیں رونے نہیں دیتے
نیند بھی آۓ تو اب آۓ ہمیں کیسے
بجلی کے یہ بل ہمیں سونے نہیں دیتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں