شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 200

پی ڈی ایم جال کہ گلے کا طوق !

پی ڈی ایم جال کہ گلے کا طوق !

تحریر:شاہد ندیم احمد
اپوزیشن کا حکومت پر اعتراض رہا ہے کہ بار بار یو ٹرن لیتی ہے ،لیکن آجکل اپوزیشن قیادت اپنے بیانات پر بڑے بڑے یوٹر ن لینے لگے ہیں،پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے بیان میں یوٹرن لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہماری جنگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں، بلکہ حکومت کے خلاف ہے،ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے گلے، شکوے، شکایت ہیںجو اپنوں ہی سے ہوتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو بہت جلد خیال آگیا کہ ہماری لڑائی حکومت سے اور شکوے شکایت اسٹیبلشمنٹ سے ہے، مولانا کے ایسے پانچ چھ بیانات نکال کر دکھائے جاسکتے ہیں کہ جس میں اسٹیبلشمنٹ پر بھرپور حملے کرتے ہوئے اپنے بیانات میںکہتے رہے ہیں کہ ان کی جنگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے، پی ڈی ایم کی بڑی جماعت نواز لیگ کے

سربراہ میاں نواز شریف نے تو صاف طور پر کہا تھا کہ ان کا جھگڑا عمران خان سے نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے ہے ،بلکہ انہوں نے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام بھی لیا تھا، مگر اب اچانک مولانا فضل الرحمن پر حقیقت آشکار ہونے لگی ہے کہ ان کی جنگ اسٹیبلشمنٹ سے نہیں ،بلکہ عمران خان کی حکومت سے ہے،ایسالگتا ہے کہ جیسے مولانا کے اندر نیا سافٹ وئیر انسٹال کر دیا گیا ہے۔یہ بہت اچھی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے وضاحت پیش کر دی ہے کہ اُن کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں، وہ اپنوں سے کسی بات پر شکوہ شکایت کرتے ہیں اِس کا تو اُنہیں حق حاصل ہونا چاہئے،

یہ وضاحت کر کے درحقیقت مولانا فضل الرحمن نے اپنی بند ہوتی سیاست کے دروازے کھول دیئے ہیں، پچھلے کچھ عرصے میں انہوں نے ہم سے نہ ٹکرائو کا بیانیہ اپنا کر وارننگ دینے کا جو لہجہ اختیار کیا تھا، ہر صاحب ِ شعور سمجھ رہا تھا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں،اس طرح تو ایسی انارکی پھیل جائے گی کہ جسے روکنے والا کوئی نہ ہو گا، رہی جمہویت تو اُس کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا،سیاست میں بہت کچھ کر سکتے ہیں، کہہ سکتے ہیں، یہ ایک معمول کی بات ہے، مگر جب آپ سیاست میں اپنے قومی اداروں کو کھینچ لاتے ہیں اور انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو بات بگڑ جاتی ہے۔پیپلزپارٹی کے مفادات بھی دائو پر لگے تو اس نے واضح طور پر ہاتھ کھینچ لیا اور وہی بلاول جو مولانا فضل الرحمن کی

باتوں کو آگے بڑھاتے تھے، پیچھے ہٹ گئے،استعفے نہ دینے کا اعلان بھی کیا اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی سنا دیا، جس سے مولانا کو احساس ہو گیا کہ وہ سیاسی محاذ پر تنہا رہ گئے ہیں،یہ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی سے واضح انکار کرتے ہوئے اپنی پگڑی بچانے کے لئے کہا ہے کہ ہم تو صرف شکوہ شکایت کرتے ہیں۔یہ کیسی عجیب صورتِ حال ہے کہ اپوزیشن جماعتیں فوج اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بھی کرتی ہیں اور انہی سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ ایک منتخب حکومت کو چلتا کریں، یہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نااہل قیادت کے دوغلانہ رویئے کا ہی نتیجہ ہے کہ نہ کبھی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی

مداخلت روک سکیں، نہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کا حق ادا کرسکیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو پیپلز پارٹی عدالتی قتل کہتی ہے، مگر در حقیقت پیپلز پارٹی نہ بھٹو کی پھانسی روک سکی، نہ پھانسی پر احتجاج کا حق ادا کرسکی، بلکہ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت تھی کہ جس نے جنرل پرویز کی حمایت میں جلوس نکالے اوراس سے بھی بڑی واردات یہ ہوئی کہ بے نظیر بھٹو نے امریکی سرپرستی میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر اوکرکے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کیے تھے۔
میاں نواز شریف کی سیاست بھی عوام سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، انہوں نے مجھے کیوں نکالاکے عنوان سے ایک مہم چلائی ،خلائی مخلوق بھی ایجاد کی، مگر جلد ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے ملک سے فرار ہوگئے،اگر عمران خان نے اس ڈیل پر اعتراض نہ کیا ہوتا تو میاں نواز شریف کی دختر نیک اختر مریم نواز بھی آج لندن میںہوتیں، میاں نواز شریف کی حالیہ مزاحمت بھی حقیقی نہیں ،بلکہ اس مزاحمت کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ پر ڈیل کے لیے دبائو بڑھارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ نواز شریف اور اُن کی پوزیشن میں بہت فرق ہے، وہ سزا یافتہ ہیں اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں،اُن کا واپس آنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی میں شکست دے دیں،اس لئے بظاہر لڑ رہے ہیں اور مریم نواز اُن کے بیانیے کو آگے بڑھا رہی ہیں،تاہم انہیںیہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر حکومت گرا نہیںپائیں گے ۔
یہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے مفاداتی روش کا نتیجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ طاقت ور ہے اور وہ جو چاہتی ہے کرتی ہے،اپوزیشن قیادت حکومت مخالفت میں اقتدار اختیار کی بات نہیں کرتیں ،آئینی حدود میں رہنے کی بات کرتی ہیں، مگر اصل میں اقتدار اور اختیار ہی درکار ہے،یہ لوگ کسی نہ کسی طرح حکومت میں آکر خود کو بچانے کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں ،تاہم پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک میںناکامی کے بعد واضح ہو تا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی قیادت کی اخلاقی ساکھ ایسی نہیں رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کے لیے پچاس ہزار لوگوں کو بھی سڑکوں پر لاسکیں، مولانا فضل الرحمن نے بھی خوش فہمی میںاسٹیبلشمنٹ کے خلاف تند و تیز بیانات دیے ،مگر اپنے تازہ ترین بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، پی ڈی ایم کاحکومت مخالف بچھایا جال اپنے ہی گلے کا طوق بننے لگا ہے، اپوزیشن قیادت کے سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہونے پر بدلتے بیانات عوام پر واضح کررہے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں