نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 134

سوداگروں کی منڈی میں بولی نہیں رُکے گی!

سوداگروں کی منڈی میں بولی نہیں رُکے گی!

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک کا سینیٹ بڑا ایوان ہے، مگر جب بھی سینیٹ انتخابات کا وقت قریب آتا ہے تو ہارس ٹریڈنگ کی باتیں زبان زد عام ہونے لگتی ہیں،جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ایوان میں سب سے بڑی سوداگروں کی منڈی لگی ہے،ملک کی سیاسی قیادت لاکھ انکار کرے ،مگرہردور میںسیاست کے بازار میں ضمیر فروش بکتے رہے ہیں،اس بار تو سینیٹ الیکشن سے قبل ہی سیاسی سوداگروں کی ویڈیو نے سیاست میں ایک ہلچل برپا کردی ہے، سینٹ انتخابات کے سلسلے میں منظر عام پر آنے والے ویڈیومیں نمایاں شرمناک طریقہ دیکھا جاسکتا ہے

کہ جسے سیاستدان سینٹ انتخاب میں ووٹوں کی خرید و فروخت کیلئے برتتے ہیں،یہ اقتدار میں آنے کیلئے پیسہ بہاتے ہیں اورپھر اپنے اقتدارکے استحکام کیلئے سب کی خریداری کے پیش نظرمال بنانے اور قوم کولوٹ کر غیرملکی کھاتے بھرنے ،اثاثے بنانے اوربیرون ملک محلات کی خریداری کی غرض سے منی لانڈرنگ کیلئے اپنی سیاسی قوت استعمال کرتے ہیں،یہ یکے بعددیگرے مسلط ہونے والی حکمران اشرافیہ ہے کہ جس نے قوم کو نہ صرف قرض میں ڈبویا،بلکہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کہتے ہیں کہ ملک بچانے نکلے ہیں۔
یہ امر واضح ہے کہ ملک کو بچانے کے نعرے لگانے والے زیادہ تر سیاستدان خود کو بچانے نکلے ہیں ،انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک کو کتنا لوٹا ،کتنا قرضے کا بوجھ بڑھایا،سیاست کو کتنا گندا کیا

عوام بہت اچھی طرح جان چکے ہیں،پہلے سیاست دانوں کی کرپشن اور خریدوفرخت کی باتیں زبانی کلامی ہوا کرتی تھیں ،اب ایک کے بعد ایک ویڈیو ثبوت کے طور پر منظر عام پر آنے لگی ہے ، آجکل ِ خیبر پختون خوا اسمبلی کی وڈیو کا بہت چر چا ہے ،اس میں چند ایک ممبرانِ اسمبلی کو نوٹوں کی گڈیاں لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے،انہوں نے گزشتہ سینیٹ الیکشن میں کروڑوں روپے لے کر اپنے ووٹ بیچے تھے ،یہ واقعہ چند سال پرانا ہے، لیکن اس وڈیو نے پہلے سے گندی سیاست کو مزید غلیظ کر دیا ہے، ِ خیبر پختون خوا کے راکینِ اسمبلی پر جب الزام لگے تھے تو انہوں نے قرآن پاک ہاتھ میں اُٹھا کر تردید کی تھی ،مگر اب عوام نوٹ گنتے ہوئے دیکھ رہیں ،اس کے باوجود بے شرمی کی انتہا ہے کہ نادم ہونے کی بجائے ماننے کیلئے تیار نہیں ،ویڈیومیںواضح ہونے کے باوجود غذر پیش کیے جارہے ہیں،یہ ہمارے اُن سیاسی لٹیروں کا رویہ ہے

،جنہیں عوام منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، تاکہ اس ملک کا مستقبل، سنورے، لیکن یہ سیاستدان ملک یا عوام کا مستقبل سنوارنے کی بجائے، اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ایسے ایسے گھٹیا کام کرتے ہیں کہ سیاست کے نام سے نفرت ہونے لگتی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر مبینہ ویڈیو کا نوٹس لیا اور ان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ محمود خان نے وزیر قانون سلطان محمد سے فوری طور پر استعفیٰ لیتے ہوئے معاملے کی شفاف انکوائری کا حکم دیدیاہے، مگر یہ سوالاپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک انصاف نے 2018ء میں جس وقت اپنے بیس اراکین کو ہارس ٹریڈنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے پارٹی سے خارج کیا تھا،کیااس وقت سلطان محمد کی مذکورہ سرگرمی میں ملوث ہونے سے بے خبر تھی؟

مبینہ ویڈیو میں نوٹوں کی گڈیاں موجود ہیں، جنہیں گن کر اراکین اپنی جیبوں اور بیگز میں ڈالتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس ویڈیو کلپ سے متعلق پیپلز پارٹی کے رہنما محمد علی باچا کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ وڈیو ایڈیٹنگ کا کرشمہ ہے، جبکہ اراکین نے ضمیر کے مطابق ووٹ دیئے تھے، سلطان محمد سمیت دیگر اراکین بھی ویڈیو کی صحت سے انکاری ہیں،ایسی بہت سی ویڈیو ساری سیاسی جماعتوں کے پاس موجود ہیں ،تاہم اس وقت پی ٹی آئی پہل کردی ہے ،دیکھنا ہے کہ دیگر ویڈیوز کب منظر عام پر آتی ہیں، اس لئے جہاں اس وڈیو کا فرانزک معائنہ ضروری ہے، وہاں سینیٹ الیکشن سمیت پورے انتخابی نظام کی شفافیت کے ضمن میں جامع اصلاحات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔
وطن عزیز میں تاثر عام ہے

کہ سینیٹ کے ایوان میں زیادہ تر لوگ پیسہ لگا کر ہی پہنچتے ہیں، اس ویڈیو سے تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے۔ مبینہ ویڈیو ایسے وقت سامنے آ ٓئی ہے کہ جب حکومت ’’اوپن بیلٹ‘‘ کی تجویز کے حق میں کاوشیں کررہی ہے ، مگر اپوزیشن ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہے ، حکومت کبھی چوری چھپے آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرتی ہے توکبھی سپریم کورٹ کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی مشروط آرڈیننس لا کر اپنی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی سعی ء لا حاصل کی جا رہی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود جب بات بنتی نظر نہیں آتی تو درمیان میں وڈیو ڈرامہ شروع کر دیا جاتا ہے،یہ سب کچھ مسائل بڑھانے والی باتیں ہیں، ایک خرابی کو دور کرنے کے لئے کئی خرابیاں پیدا کرنے کا راستہ اختیار کرنا کہاں کی دانشمندی ہے،اگر حکومت این آر او سے بچتے بچاتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مل کر انتخابی نظام میں اصلاحات کی کوششیں کرلے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست میں دولت کا استعمال، کرپشن کے الزامات کوئی نئی چیز نہیں ،یہاں کرپشن، بدعنوانی اور اخلاقی بحران انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے ،ضمیروں کی خرید و فروخت ہوسِ دولت اور کردار کی پستی صرف سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا ہی مسئلہ نہیں ، اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کرپشن اور بدعنوانی کی گندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں،یہاں پر اکثریت میں دولت، اقتدار اور اختیار کے لیے شرمناک کردار ادا کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں،

یہ صورت حال بتاتی ہے کہ پاکستانی سیاست اور معاشرے کی اصلاح کے لیے محض نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا ،اگر عوام واقعی تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیںتو سب سے پہلے خود میں تبدیلی لانا ہو گی، محض حکومتی آئینی ترامیم سے انتخابات کبھی شفاف نہیں ہوں گے،اس کیلئے اصلاحات کے ساتھ خود کو بدلنا ہو گا ،ہم جب تک خود کو نہیں بدلیں گے ، کرپشن کے خاتمے کا تحیہ نہیں کریں گے ،ملک میںخریدو فروخت کا بازار یونہی سجتا رہے گا ،سوداگروں کی منڈی میں بولی یونہی لگتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں