عالمی یوم خواتین اور عورت 142

مہنگائی ، محرومیاں اور عوام

مہنگائی ، محرومیاں اور عوام

خلیل احمد تھند
ڈائریکٹر ہیومن رائٹس پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی عبداللہ منصور صاحب نے فون کرکے سوال اٹھایا کہ کوکنگ آئل 290 سے 300 روپے اور چکی آٹا 2600 روپے من فروخت ہورہا ہے یہ دونوں چیزیں ہر شہری کی ضرورت ہیں باقی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے بڑھی ہیںمارکیٹ میں کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف مل رہا ہوایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 35 فیصد سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں بعض اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی تسلیم کیا کہ دو کروڑ افراد روزگار سے محروم ہیں
بجلی ، گیس ، پٹرول اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں تسلسل سے بڑھ رہی ہیں جبکہ اس شرح سے شہریوں کے ذرائع آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ناہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نظر آرہا ہےآمدن اور مہنگائی کے درمیان توازن نا ہونے کی وجہ سے عام افراد کے لئے بنیادی ضروریات زندگی کا حصول بھی مشکل ہورہا ہے
اندرون لاہور سے ایک دوست رضوان کامران نے بتایا کہ ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے گھر کے برتن فروخت کرنے پر مجبور ہیںخود ہم نے عام شہریوں کو مہنگائی سے روتے اور سابقہ ملقب چوروں کو یاد کرتے دیکھا اور سنا ہے ہم نے جب ان سے کہا کہ وہ بھی اسی طرح کے تھے تو وہ یہ کہہ کر انکا دفاع کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں وہی چور واپس لوٹا دیں جن کے دور میں انکی بچے تعلیم حاصل کررہے تھے

اورمہنگائی بھی اسقدر نہیں تھی اس صورتحال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر نئی حکومت اپنے اعمال بد سے صرف پرانی حکومتوں کو اچھا ہونے کا جواز فراہم کرنے کے لئے اقتدار میں آتی ہیںہم سمجھتے ہیں کہ عام شہری کو چور چور کے لولی پاپ کی ضرورت نہیں ہے اس فلسفے سے انکے مسائل حل نہیں ہونگے انہیں ریلیف کی ضرورت ہے
ہمارے مقتدر طبقے کو اس تلخ حقیقت کا احساس نہیں ہے کہ غربت اور محرومیوں میں اضافہ سے جرائم ، فرسٹریشن اور بغاوتیں جنم لیتی ہیں پھر لوگ غدار قرار پاتے اور سزا کے سزاوار ٹھہرائے جاتے ہیںہم نے ڈھاکہ فال سے کچھ نہیں سیکھا بلوچستان ، دیہی سندھ ، جنوبی پنجاب اور دور دراز کے پشتون علاقوں میں بغاوت نہیں محرومیاں سر اٹھارہی ہیں اس حقیقت کا احساس صرف اس طبقے کو نہیں ہے جن کی پانچوں گھی میں ہیں
ہم وزیراعظم عمران خان صاحب سے بھی دونوں ہاتھ اور پاوں باندھ کر گزارش کرتے ہیں کہ قوم کو ایسی تبدیلی کی ضرورت نہیں جس سے عام لوگوں کی محرومیوں میں اضافہ ہورہا ہو موجودہ مشکل ترین حالات میں وہ خود ہی فرمائیں کہ عوام بجلی کے بل جلائیں یا سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں
ہمارا ان ارکان اسمبلی سے بھی سوال ہے جو منتخب ایوان میں عوامی ریلیف کے لئے سرگرم ہونے کی بجائے سینیٹ کے ووٹ کے لئے کروڑوں کی خریدوفروخت میں ملوث دکھائی دے رہے ہیں کہ کیا وہ عوام کو بھی اپنا ووٹ کروڑ نا سہی لاکھوں میں فروخت کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں