صد فی صد پڑھا لکھا جرائم سے پاک گاؤں رسول پور پاکستان 290

اصحاب کہف اور ان کی پناہ گاہ غار کہف

اصحاب کہف اور ان کی پناہ گاہ غار کہف

فاروق۔شاہ بندری
نقاش نائطی
اصحاب کہف کو غار کے لوگ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر قرآن پاک کی اٹھارویں سورہ کہف میں بھی آیا ہے جسے عالم بھر کے اکثر مسلمان ہر جمعہ کو پڑھا کرتے ہیںعام طور پر ان کی تعداد 3، 5 یا 7 بتائی جاتی ہے مگر قرآن مجید میں ان کی تعداد کو نہیں بتایا گیا ہے۔ اصحاب کہف کے ساتھیوں میں ایک کتا بھی شامل ہے۔طبری اور دیگر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ لوگ مسیحی(یہ اس وقت کا دین حقیقی یا دین حنیف تھا) ہو گئے تھے اور بت پرستی سے انکار کرتے تھے۔ ایشیائے کوچک کے کسی شہر افسوس یا اسبُوس (پریوز) کے رہنے والے تھے اور بادشاہ دکیوس (249ء تا 251ء ) کے خوف سے شہر کے باہر ایک غار میں جا چھپے تھے۔ ان کا کتا بھی ان کے ساتھ تھا۔ خدا نے ان پر نیند طاری کردی اور 309 برس غار میں سوتے رہے۔

اصحاب کہف جب بیدار ہوئے تو انھوں اپنے ایک ساتھی کو شہر کھانا لانے بھیجا لیکن اس کے پاس پرانے زمانے کے سکے تھے۔ دکانداروں کو بڑی حیرت ہوئی۔ اور رفتہ رفتہ بادشاہ وقت کو جو مسیحی تھا اس واقعے کی خبر ہوئی۔ اس نے ان نصرانیوں کو بڑی عزت سے اپنے پاس بلوایا اور ان کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد یہ لوگ پھر غار میں جا کر سو گئے۔ عباس بن عبدالمطلب کی روایت کے مطابق اس کتے کا نام جو اصحاب کہف کے ساتھ غار میں گیا تھا قطمیر ہے۔
موجودہ دور کے اسلامی اسکالر اور محقق راشد اقبال شعبہ اسلامی تعلیمات، جامعہ گورنمنٹ کالج لاہور، پاکستان کے مطابق بحر میت کے مخطوطات روشنی میں یہ اصحاب کہف کا تعلق یہودیوں کے اسین طبقہ سے تھا جو اس وقت خالص مسلمان تھے۔ یہ یہودیوں کے گمراہ طبقے کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ مروجہ روایت والے بت پرست رومیوں کی بجائے فارسیوں اور صدوقیوں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ ان لوگوں کی اس قربانی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ لوگ عیسیٰ کے حواری تھے جنھوں نے اُسی بھری عدالت میں قاضیوں کے جرائم کو بے نقاب کیا جس عدالت نے یسوع کی مبینہ مصلوبیت کی حمایت کی تھی۔

تین ایسے ادوار گزرے ہیں جب فارسیوں اور صدوقیوں کے علاوہ یہودی قوم کی حالتِ زار ناگفتہ بہ تھی۔ انہی ادوار کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اصحاب الکہف ان ادوار میں سے کسی ایک سے ہو سکتے ہیں۔ پہلا دور یسوع مسیح اور مقدس اسٹیفن کے فوراً بعد کا دور یعنی 34ء سے آگے والا جب یہودی مذہبی افسرشاہی یسوع مسیح کی مبینہ مصلوبیت، اسٹیفن اور جیمز کی سنگساری کے بعد بہت مضبوط تھی۔ دوسرا دور یہودیوں کی بغاوت ثانیہ، جو مسادا میں ان کی فیصلہ کن شکست سن 74ء پر اختتام پزیر ہوئی، سے آگے کا ہو سکتا ہے اور تیسرا دور یہودیوں کی بغاوت ثالثہ (وقوع پزیر سن 134ء) کے بعد کا ہو سکتا ہے جو دوبارہ یہود کی المناک شکست پر مرتکز ہوا۔قرآن کے بتائے گئے

نیند کے وقت 309 سال کی بنیاد اور بحر المیت کی دستاویزات میں موجود ”نبی حباقوق کی شرح“ میں ظالم شخص اور اس کے جھوٹ اور اسی بات کا تذکرہ قرآن پاک میں ظالم شخص کے جھوٹ کے تقابلی موازنہ سے گمان قوی ہے کہ یہ نوجوان حضرت عیسی کے رفع آسمانی 34ء کے فورا بعد کے زمانے میں غار میں پنا گزین ہوئے اور جب یہ نوجوان بیدار ہوئے تو 339ء سے 400ءکے درمیان کا عرصہ ہو گا۔کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے جب ان جوانوں نےغار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی(راہ پانے) کے سامان کر۔ آیات قرآنی کا ترجمہاس واقعہ کو اللّٰہ عَزَّ وَ جَلَّ نے اپنی عجیب و غریب نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا کیونکہ اس واقعے میں بہت سی نصیحتیں اور حکمتیں ہیں

اصحابِ کہف کے متعلق قوی ترین قو ل یہ ہے کہ وہ سات حضرات تھے اگرچہ ان کے ناموں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی روایت پر جو خازن میں ہے ان کے نام یہ ہیں ۔ 1) مکسلمینا، 2)یملیخا، 3) مرطونس 4) بینونس 5) سارینونس 6) ذونوانس، 7) کشفیط طنونس اور اُن کے کتے کا نام قطمیر ہے۔ ( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۲۰۷)

اَصْحابِ کَہْف یا یاران غار،ان مسیحی صاحبان ایمان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے قدیم روم کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے ظلم سے بچنے کے لئےایک غار میں پناہ لی تھی۔یہ لوگ سوائے ایک چرواہے اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے اشراف میں سے تھے وہاں پہنچ کر ان سب پر نیند طاری ہو گئی وہ لوگ 309 سال تک سوئے رہے۔
قرآن کریم میں سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ شیعہ احادیث میں اصحاب کہف کو امام مہدیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ کس جگہ رونما ہوا اور مذکورہ غار کہاں پر واقع ہے؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر یہ غار موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر میں اِفِسوس (اِفِسُس) نامی شہر میں واقع ہے۔ ایرانی ٹیلی ویژن پر مردان آنجلس نامی ٹی وی سیریل اسی واقعہ پر بنایا گیا ہے جس کا اردو میں ترجمہ، “اصحاب کہف” کے نام سے کیا گیا ہے۔

اکثر مفسرین کے نزدیک اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد رونما ہوا اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کا ہے اور ا س کا ذکر اہلِ کتاب کی مذہبی کتابوں میں موجود ہے اور اسی وجہ سے یہودیوں نے بڑی توجہ کے ساتھ ان کے حالات محفوظ رکھے۔ بہر حال یہ واقعہ کس زمانے میں رونما ہوا اسکی اصل حقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، چنانچہ مفسرین کے بیان کے مطابق اصحابِ کہف اُفْسُوس نامی ایک شہر کے شُرفاء و معززین میں سے ایماندار لوگ تھے

۔ ان کے زمانے میں دقیانوس نامی ایک بڑا جابر بادشاہ تھا جو لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا اورجو شخص بھی بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اسے قتل کرڈالتا تھا دقیانوس بادشاہ کے جَبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے اصحابِ کہف بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں غار کے اندر پناہ گزین ہوئے، وہاں سوگئے اور تین سو برس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے۔ بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ ایک غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کردیا جائے تاکہ وہ اس میں مر کر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہوجائے، یہی ان کی سزا ہے۔

حکومتی عملے میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام، تعداد اور پورا واقعہ رانگ کی تختی پرکَنْدَہ کراکر تا نبے کے صندوق میں دیوار کی بنیا د کے اندر محفوظ کردیا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا، زمانے گزرے، سلطنتیں بدلیں یہاں تک کے، ایک نیک بادشاہ فرمان روا ہوا جس کا نام بیدروس تھا اور اس نے 68 سال حکومت کی۔ اس کے دورِ حکومت میں ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے۔

بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ یارب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے مخلوق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو جائے۔ اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور (کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر) دیوار کوگرا دیا۔ دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے۔ اصحابِ کہف اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے فرحاں و شاداں اُٹھے، چہرے شگفتہ، طبیعتیں خوش، زندگی کی ترو تازگی موجود۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ، نماز سے فارغ ہو کر یملیخا سے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر

لائیے کہ دقیانوس بادشاہ کا ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ ہے۔ وہ بازار گئے تو انہوں نے شہر پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی اور وہاں نئے نئے لوگ پائے، یہ دیکھ کر انہیں تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کل تک تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کرسکتا تھا جبکہ آج اسلامی علامتیں شہرپناہ پرظاہر ہیں۔ پھر کچھ دیر بعد آپ تندور والےکی دوکان پر گئے اور کھانا خریدنے کے لئے اسے دقیانوسی سکے کا روپیہ دیا جس کارواج۔صدیوں سےختم ہوگیا تھا اور اسے دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہے، چنانچہ وہ انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے، وہ نیک شخص تھا ،اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا

خزانہ کہیں نہیں ہے۔ یہ سکے ہمارے اپنے ہیں۔ حاکم نے کہا،یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں کیونکہ اس میں جوسال لکھا ہوا ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں، ہم لوگ بوڑھے ہیں، ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں۔آپ نے فرمایا:- میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہوجائے گا۔ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال وخیال میں ہے؟ حاکم نے کہا، آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں، سینکڑوں برس پہلے ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں اور میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں، چلو میں تمہیں انسےملادوں، حاکم اور شہر کے سردار اور ایک کثیر مخلوق ان کے ہمراہ غار کے کنارے پہنچ گئے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے، جب انہوں نے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز سنی تو سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے

اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آرہی ہے۔ چنانچہ وہ اللّٰہ عَزَّوَ جَلَّ کی حمدمیں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں شہر کے لوگ پہنچ گئے اور یملیخا نے بقیہ حضرات کو تمام قصہ سنایا، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اتنا طویل زمانہ سوئے رہے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے موت کے بعد زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی بنیں۔ جب حاکمِ شہر غار کے کنارے پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا،

اس کو کھلوایا تو تختی برآمد ہوئی، اس تختی میں اُن اصحاب کے اَسماء اور اُن کے کتے کا نام لکھا تھا، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کےلئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی ہے، دقیانوس نے خبر پاکر ایک دیوار سے انہیں غار میں بندکردینے کا حکم دیا ہے، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں تاکہ جب کبھی یہ غار کھلے تو لوگ ان کے حال پر مطلع ہوجائیں۔ یہ تختی پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللّٰہ عَزَّ وَ جَلَّ کی حمد و ثناء بجالائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔

حاکمِ شہرنے اپنے بادشاہ بید روس کو واقعہ کی اطلاع دی ، چنانچہ بادشاہ بھی بقیہ معززین اور سرداروں کو لے کر حاضر ہوا اور شکرِ الٰہی کا سجدہ بجا لایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی ۔اصحاب ِکہف نے بادشاہ سے مُعانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتے ہیں۔ والسلام علیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکا تہ ،اللّٰہ تعالیٰ تیری آور تیرے ملک کی حفاظت فرمائے اور جن واِنس کے شر سے بچائے۔ بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے

اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں وفات دیدی، بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اَجساد کو محفوظ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے رُعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے۔ بادشاہ نے سرِغار مسجد بنانے کا حکم دیااورایک خوشی کا دن معین کردیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں۔۔ (خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۹۸-۲۰۳، تفسیر ابن کثیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۳۲-۱۳۳، خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۵۴۹-۵۵۰، ملتقطا)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں