کشمیریوں کی آواز کو ہندوستانی اثر و رسوخ کے تحت خاموش کرنے پر کشمیر کمیٹی ٹویٹر کے علاقائی سربراہ سے جواب طلبی
اسلام آباد: (راجہ فرقان احمد) پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر کے علاقائی سربراہ سے جواب طلب کیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ہزاروں کشمیریوں کی حالت زار پر اٹھائی جانے والی آواز پر ٹویٹر کی کیا پالیسی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ خصوصی سماعت میں کمیٹی کے چیئرمین شہریار خان آفریدی نے متحدہ عرب امارات میں ٹویٹر کے علاقائی دفتر کے سربراہ مسٹر جارج سلامہ سے ٹویٹر کی پالیسی پر سوالات کیے۔ آفریدی نے جارج سلامہ سے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی سے متعلق ٹویٹر پالیسی کے بارے میں سوال کیا
اور پوچھا کہ کیا ٹویٹر کے ضوابط اقوام متحدہ کی شقوں اور اظہار رائے کی آزادی کے مطابق ہیں۔ ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک جارج سالامہ نے کہا کہ ٹویٹر کی ایک مخصوص پالیسی ہے جس کے مطابق نفرت انگیز تقریر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹویٹر حکام سب کے اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنائیں گے اور اقلیتوں کی آواز کو کبھی خاموش نہیں کیا جائے گا۔ ڈس انفو لیب کے ذریعہ بھارتی کارکنوں کے ٹویٹر ضوابط کے غلط استعمال کے بارے میں شہریار آفریدی کے ایک سوال کے جواب میں جارج نے کہا کہ ٹویٹر انتظامیہ ہمیشہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری کارکن جائز طریقوں سے اپنی آواز بلند کرنے کے لئے آزاد اور خودمختار ہیں۔ انہوں نے ٹویٹر کے ضوابط پر پاکستانی اور کشمیری سوشل میڈیا کارکنوں کو آگاہی
دینے کےلئے پی ٹی اے کے ساتھ پاکستان میں ورکشاپس کا انعقاد کرنے کی پیش کش کی۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ جب وہ دو سال قبل وزیر داخلہ تھے تو بھارتی سوشل میڈیا کارکنان توہین رسالت کے معاملے پر پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی خاطر بھارتی شہروں سے ایک منٹ میں 80 ٹویٹس کروا رہے تھے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ٹویٹر کے دوہرے معیار کی وجہ سے پاکستان میں نفرت اور تشدد کو بھڑکانے کے مقصد سے ٹویٹ کرنے والے بھارتی ایجنٹوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے 8 لاکھ سے زیادہ افراد کو ٹویٹر کے ہندوستانی ملازمین کے زیر اثر خاموش کرایا جارہا ہے۔ جارج نے کہا کہ ٹویٹر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعہ گمراہ کن مواد پوسٹ کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ شہریار آفریدی نے بھارتی پیشہ ور حکام کے ذریعہ یو اے پی اے کے کالے قانون کے
غلط استعمال کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو خاموش کرنے کے خلاف آواز اٹھائی۔ شہریار آفریدی کو جواب دیتے ہوئے ٹویٹر کے نمائندے نے کہا کہ متنازعہ علاقے کے تمام شہریوں کے لئے ٹویٹر کی پالیسی برابر رہے گی۔ جارج نے کہا کہ ہم پی ٹی اے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ تمام سوشل میڈیا صارفین کو برابر کے مواقع کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔” شہریار آفریدی نے کمیٹی ممبران سے اپیل کی کہ وہ مختلف مشاورتی بورڈوں کی سربراہی کے لئے آگے آئیں اور دلچسپی کا مظاہرہ کریں تاکہ کمیٹیاں تشکیل دی جاسکیں۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم ، سکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات محترمہ شاہرہ شاہد اور دیگر اعلی عہدیداروں نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ بیرسٹر محمد علی سیف کو کشمیر کے مشاورتی بورڈ برائے قانون میں ذیلی کمیٹی کا کنوینر نامزد کیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کو 5 اگست 2019 سے ہندوستانی آپریٹرز کے
زیر اثر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی معطلی سے متعلق آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے نے ایک مخصوص ملک کے زیر اثر پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹس کی معطلی میں اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قوانین منظور کیے جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کا پاکستان میں آفیس موجود ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار جب پی ٹی اے کسی بھی اکاؤنٹ کی اطلاع دیتا ہے تو ، ٹویٹر کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر تعمیل کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فروغ نسیم نے 8 لاکھ کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے سے متعلق مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ میں جموں و کشمیر پر خود مختاری کا مقدمہ پہلے ہی جیت چکے ہیں اور جموں کشمیر تنازعہ
کو بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ چیئرمین پیمرا نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نجی اور سرکاری ٹیلی ویژن چینلز جموں و کشمیر کے تنازعہ پر شعور بیدار کرنے کے لئے بھر پور تعاون کررہے ہیں۔ شہریار آفریدی نے سوال پوچھا کہ کیا نجی چینلز بھی کشمیر کی حالت زار پر فلموں اور ڈراموں کی تیاری پر توجہ دے رہے ہیں جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ اس سال یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں 5 فروری کو کچھ چینلز نے اپنا لوگو تبدیل نہیں کیا جس پر ان ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ سماجی
ذمہ داری (سی ایس آر) کے تحت نجی ٹیلی وژن چینلز اور میڈیا ہاؤس تنازعہ کشمیر اور بھارت کے جموں و کشمیر پر غیرقانونی قبضہ اور کشمیریوں کی حالت زار پر نشریات دکھانے کے پابند ہیں۔ چیئرمین پیمرا نے تنازعہ کشمیر سے متعلق ٹیلی فلموں اور ڈراموں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے لئے وقت مانگا۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کے ذریعہ پورے ہندوستانی مواد پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نجی ٹی وی چینلز کشمیر پر کوئی مواد تیار نہیں کررہے اور صرف سرکاری اداروں کے ذریعہ تیار کردہ مواد نجی میڈیا ہی چلا رہا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے نجی ٹی وی چینلز پر کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے حوالے سے پیمرا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار خان آفریدی نے چیئرمین پیمرا اور پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو ہدایت کی کہ وہ تنازعہ کشمیر پر بیداری لانے کے لئے دونوں ریاستی اداروں کی کارکردگی سے متعلق تفصیلی بریفنگ پیش کرے۔