نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 164

عوام آئی ایم ایف سے گھبرائے نہیں !

عوام آئی ایم ایف سے گھبرائے نہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
دنیا بھر میں جن ممالک نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی ہے ، معاشی طورپر بہتر ہونے کی بجائے تباہ ہی ہو ئے ہیں،پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی خود مختاری اور سلامتی داو پر لگا چکے ہیں۔پاکستان کی ہر حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضوں کا مزہ چکھا ،اب موجودہ حکومت بھی چھکنے پر مجبور نظر آتی ہے ، حالانکہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے قرض کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی تھی ،مگر اقتدار میں آنے کے بعد قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے

اور ملکی معیشت کی خرابی کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوںپر ڈال رہی ہے، اس جماعت کو اقتدار میں آئے اڈھائی سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور ملکی حالات میں بہتری لانے کے لیے اتنا عرصہ کافی ہوتا ہے،مگر حکومت ملکی معیشت میں بہتری لانے کی بجائے عوام کو گھبرائے نہیںکی تلقین کررہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت ملکی معیشت میں بہتری کیلئے شب روزکوشاں ہے ،مگر حالات کی ستم طریفی ہے کہ حکومت کے نہ چاہنے کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانا پڑ رہا ہے ،اس بار بھی آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے تمام شرائط تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان کے لیے قرض کا پروگرام بحال کر دیا ہے، آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان گزشتہ تین ماہ سے آن لائن مذاکرات جاری تھے، اس دوران میں آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے پانچواں جائزہ مکمل کیا اور ایگزیکٹیو بورڈ کو50 کروڑ ڈالر کے قرض کی نئی قسط کے اجراء کی سفارش کر دی ہے،پاکستان، آئی ایم ایف مذاکرات کے اختتام پر آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعلامیے میںبتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔
یہ آمرواضح ہے کہ آئی ایم ایف قرض دینے پر کڑی شرائط بھی رکھتا ہے ،اس بار بھی آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط کوئی نئی نہیں ہیں،2013ء میںمیاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف نے6.7 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا تو اس وقت بھی ایسی ہی تباہ کن شرائط عاید کی گئی تھیں، جن میں تیل، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، نجکاری کے نام پر قومی اداروں کی اونے پونے داموں فروخت، عوام کے لیے زر تلافی کا خاتمہ، وار آن ٹیرر کے ضمن میں ڈو مور کا مطالبہ شامل تھا۔ اس وقت بھی موجودہ وزیر خزانہ کی طرح، اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا تھا کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ،اس بار بھی یہی کچھ کہا جارہا ہے ،

پہلے زرداری، گیلانی حکومت نے2008ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا،اس کے بعد میاں نواز شریف نے اور اب پی ٹی آئی حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔پا کستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،مگر اس کا قر ض دینے کے پیچھے ایجنڈا سیاسی ہوتا ہے ، وہ کسی حکومت کو قومی و بین الاقوامی سیاست میں آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، سابق حکومت کے دور میں مطالبہ تھا کہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دیا جائے، تاکہ وسط ایشیا اور بھارت کے درمیان زمینی رابطہ بحال ہو جائے

اور اب آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری سے پہلے( سی پیک )یعنی چین کی جانب سے بری اور بحری تجارتی راہداری کے منصوبے کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے،آئی ایم ایف نے تینوں حکومتوں کو تین سال کے لیے6ارب ڈالر کی قرض کی منظوری دی اور ہر قسط کے موقع پر اپنی شرائط پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جاتا ہے،اگر شرائط پر عمل در آمد میں کوتاہی کی جائے تواصلاحاتی عمل کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔
اس اصلاحاتی عمل سے مراد ہے کہ پاکستان کے قومی اداروں کی خود مختاری سلب کر لی جائے، ملک کے اوگرا، نیپرا اور اسٹیٹ بینک جیسے اہم ادارے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نہ صرف تابع ہو جائیں،بلکہ حکومت کا ان پرکنٹرول بھی کم سے کم ہو جائے،آئی ایم ایف کو بڑھتی مہنگائی اور عوامی مشکلات سے کوئی غرض نہیں ،انہیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل سے غرض ہے۔ اس وقت ملک میں ایک طرف توبحث جاری ہے کہ سیاسی بالا دستی کسے حاصل ہو نی چاہیے،

جبکہ دوسری جانب کوئی بھی سیاسی جماعت یا ریاستی ادارہ امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات کی مزاحمت کرنے کو تیار نہیں ہے، اگر آج پاکستان قرضوںمیںجکڑا ہوا ہے اور معیشت اپنے قرضوں کو ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے تو اس کی بڑی وجہ ایسی حکومتیں رہی ہیں کہ جو اپنے اقتدار کے لیے امریکا اور عالمی اداروں کی خدمت گاری کے لیے پست سطح پر اُترنے کے لیے بھی تیار ہو جاتی ہیں۔
تحریک انصاف حکومت ملکی معیشت میں بہتری لانے کے لیے آئی ایم ایف کا کڑوا گھونٹ پی رہی ہے ،جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ حکومت کو ناکام کر کے آئی ایم ایف پروگرام معطل کروایا جائے، یہاں قومی حوالے سے توکوئی نہیں سوچ رہا ، سب اپنے مفادات کے حصول میں لگے ہیں، آئی ایم ایف کے ارادوں سے لگتا ہے کہ اس بار بھی کوئی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں ،وہ اگر، مگر سننے کی بجائے اپنی شرائط پر عمل چاہتا ہے،ملک ایسے حالات معاشی لحاظ سے ایسی سمت کی جانب جا رہے ہیںکہ جس میں غریب عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو جائے گا،

اگر اسی طرح بجلی ، گیس ،پٹرول مہنگے کرنے کی شرط پوری ہوتی رہیں تو سمجھ لیں کہ ملکی معیشت یرغمال بن گئی ہے۔آئی ایم ایف کے قرضوں کے باعث بڑھتی مہنگائی میں عمران خان تو عوام سے یہی کہیں گے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ،لیکن حقیقت میں عوام اب گھبرا بھی رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے پناہ بھی مانگ رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں