’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 327

’’گداگری اور حکومتی ذمہ داری‘‘

’’گداگری اور حکومتی ذمہ داری‘‘

تحریر اکرم عامر سرگودھا
سرگودھا غربت انسان کو اس نہج پر پہنچا دیتی ہے صاحب کہ انسان انسانیت کی تمام حدیں پس پشت ڈال کر،چوری، ڈکیتی، فراڈ، بدیانتی، اپنے بچوں کو بیچنے حتیٰ کہ بھیک مانگنے تک مجبور ہو جاتا ہے،غربت کی کی ماری خواتین تو بھیک مانگنے کے ساتھ اپنی عزت تک فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور انہی میں سے خواتین طوائف کاروپ دھار لیتی ہیں اور پھر زندگی بھر وہ خود اور ان کے ہاں پیدا ہونے والی بیٹیاں زندگی بھرمعاشرہ کے امرا اور پھر انہی کی اولادوں کی راحت و تسکین کا باعث بنتی ہیں یہ سب معاشرے اور حکومتی بے حسی کے باعث ہورہا ہے،کیونکہ من حیث القوم ہم غریب کی مدد کی بجائے اس سے نفرت کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں کسی بھی حکومت نے غربت وافلاس زدہ طبقے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کے ساتھ تشویش ناک حد تک بڑھتے سٹریٹ کرائم، گداگروں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ، بیروزگاری، غربت کے باعث اجتماعی خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رپورٹ ہونے والے واقعات نے ملک کو خوفناک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے، معاشرہ میں گداگری کی دو قسمیں ہیں، بعض مجبور ہو کرگداگری کرتے ہیں اور کچھ نے گداگری اپنا پیشہ بنا رکھا ہے، بڑے شہروں میں تو باقاعدہ گداگری کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی ایک مثال گزشتہ روز اسلام آباد میں پکڑا جانے والے 50 گداگروں کا غول تھا، جن کا سربراہ انہیں گاڑیوں پر بٹھا کر مختلف پوائنٹس پر چھوڑ جاتا اور ان سے یومیہ ایک ہزار روپیہ فی کس وصول کرتا تھا، اسی طرح کے گروہوں کی تعداد ملک میں درجنوں نہیں سینکڑوں میں ہیں،

کراچی، ملتان، کوئٹہ، سرگودھا، لاہور پشاور، راولپنڈی، بہاولپور، شیخوپورہ، گجرانوالہ سمیت ملک کے تقریبا ہر بڑے شہر میں اس نوعیت کے گروہ موجود ہیں، جو یومیہ کی بنیاد پر پروفیشنل بھکاریوں کو ان کی منزل تک پہنچا کر ان سے یومیہ کے حساب سے رقم لیتے ہیں، کئی بڑے شہروں میں تو باقاعدہ بھکاری گروہوں کو غنڈہ عناصر کی سرپرستی حاصل ہے، جنہوں نے علاقے تقسیم کر رکھے ہیں اور ان علاقوں میں صرف پیشہ ور گداگر ہی بھیک مانگ سکتے ہیں اگر کوئی مستحق بھکاری ان علاقوں میں بد قسمتی سے بھیک مانگنے کیلئے داخل ہو جائے تو یومیہ اجرت لینے والے غنڈہ عناصر اس مستحق بھکاری کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ آئندہ وہ اس علاقے کا رخ کرنے کا نام نہیں لیتا، گو کہ بھیک مانگنا کوئی اچھا شیوہ نہیں ہے لیکن مجبور اور غربت کا مارا طبقہ اگر بھیک مانگنے نکلے تو پروفیشنل بھکاری ان کا حق مار دیتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ بہت سنگ دل ہے جو اپنے قرب و جوار عزیز اقارب، رشتہ داروں، مہنگائی کی چکی میں پسنے والے خاندانوں کی مدد کرنے کی بجائے ان سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں، کرائے کے مکان میں بسنے والے خاندان درجن کے قریب کنبہ کا اکلوتا کفیل مزدور باپ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر دن بھر در بدر کی ٹھوکریں کھاتا مزدوری کر کے شام کو جب گھر لوٹتا ہے تو دکان سے دو کلو آٹا آدھا کلو چینی دو ڈبے دودھ ، اور ایک چھوٹا پیکٹ گھی کا لے کر گھر پہنچتا ہے تو گھر میں بسنے والے کنبہ کے چہرے خوشی سے کھلکھلا اٹھتے ہیں اور ماں گلی محلوں سے اکٹھی کی گئی

چھلکے اور لکڑیاں جلانے میں مصروف ہو جاتی ہے رات کو سارا دن کا تھکا ہارا پچپن ساٹھ سالہ واحد کفیل رات بھر عدم توجہی صحت کھانس کھانس کے گذار دیتا ہے اور اگلی صبح پھر ان بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنی ناساز طبیعت کے ساتھ مزدوری کے لئے نکل پڑتا ہے اور یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہیں پاتا اور وہ مزدور حالات کی جنگ لڑتے لڑتے کسی چوک چوراہے میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، غربت کے مارے اہل خانہ کے پاس کفن دفن کے لئے پیسے تک نہیں ہوتے تو حالات کو بھانپ کر اہلیان محلہ کفن دفن توکردیتے ہیں مگر اس کے بعد اس گھر کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تو پھر بوڑھی خاتون اپنے بچوں کا پیٹ پالنے خود گھر سے نکل پڑتی ہے، جو اپنے شوہر کی طرح کسمپرسی کی حالت میں بھیک مانگتے مانگتے لاغر ہو کر دم توڑ جاتی ہے تو پھر یہ سلسلہ بچوں تک پہنچ جاتا ہے، اور اپنے رشتہ داروں کی عدم توجہی کے شکار یتیم بچے گلی

محلوں میں اور دکانوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، جنہیں دکاندار سامنے آتے ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر دھتکار دیتے ہیں اور کوئی اکا دکا رحم دل ان بچوں کو کوئی پانچ روپے کا سکہ یا 10 روپے کا نوٹ تھما کر چلتا کر دیتا ہے، حالانکہ یہ بچے مجبورا بھیک نہیں مانگتے بلکہ ہنستے بستے گھر کا شیرازہ بکھر نے پر ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور وہ بھوک، احساس کمتری سے نڈھال معاشرے کی نفرت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور کروڑں کی دکان سے پانچ روپے کے سکے مانگ مانگ کے کھانا کھانے پہ زندگی مختص کر دیتے ہیں اور معاشرہ ان کو اچھوت سمجھ کر دکان میں گھسنے سے پہلے ہی اسے باہر نکلنے کا اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔اس کے باوجود آج کل بازاروں، گلی، محلوں اور بڑے پلازوں

میں بھکاریوں کی بہتات ہے، جن میں اکثریت پیشہ ور بھکاریوں کی ہے جن کا یہی ذریعہ معاش ہے، ان میں اکثریت صدقہ، ذکوۃ، فطرانہ اور بھیک کے حق دار نہیں ہوتے، اور یہی بھکاری صدائیں لگاتے پھرتے ہیں کہ ’’دے اللہ کے واسطے، تمہاری پڑھیاں نمازاں، روزے قبول ہوں، اللہ تہانوں حج کرائے تے مدینہ منورہ دکھائے‘‘سو بھکاری طرح طرح کی صدائیں لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بھکاریوں کی اکثریت کو نماز تو دور کی بات کلمہ تک پڑھنا نہیں آتا، لیکن کیونکہ بھیک مانگنا ان کا پیشہ بن چکا ہوتا ہے اور یہ روزانہ کی بنیاد پر اپنا یہ دھندہ جاری رکھے ہوتے ہیں۔
توجہ طلب امر ہے کہ معاشرہ یہ کیوں بھول گیا ہے کہ ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ جس کا دل غریب کو دیکھ کے پسیج نہ جائے وہ مفتی تو ہو سکتا ہے، خطیب تو ہو سکتا ہے، عالم تو ہو سکتا ہے، عابد تو ہو سکتا ہے مگر وہ نیک نہیں ہو سکتا اور دونوں جہانوں کے سردار کا بھی یہی کہنا ہے کہ جس نے ہمارے دئیے ہوئے رزق سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا وہی فلاح پائیں گے۔ اور جب تم پہ مشکل وقت آجائے تو اللہ سے تجارت کرو اسکی راہ میں خرچ کرو، آقا کا یہ بھی فرمان ہے کہ تمہارے پاس جب کوئی سائل آئے تو اسکی مدد کرو اور بعد میں اللہ کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے تجھے نیکیاں اکٹھی کرنے کا موقع فراہم کیا ہے اسلام کا پہلا درس اخلاق ہے اور یہ اخلاق ہی ہے کہ تم دکھی انسانیت کی خدمت کرو ایک دوسرے کے

مددگار بنو کسی کی مدد کرتے وقت دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلنے دو، لیکن معاشرہ میں یہ رسم چل نکلی ہے کہ ہم لوگ فرسودہ روایات پر تو بے دریغ روپیہ ،مال و متاع خرچ کردیتے ہیں لیکن اپنے خاندان میں پسے افراد، کنبہ کی مدد انا پرستی کی خاطر نہیں کرتے کہ کہیں اس کی مدد سے غریب سہارا لے کر اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو جائے، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ خاندانی رنجشوں کو جواز بنا کر سگا بھائی اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کی کفالت نہیں کرتا، لیکن وہی لوگ غیر وں کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں مگر ہمارے اپنے خونی رشتے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتے ہیں، اکثر لوگوں نے اپنے سگے خونی رشتوں کو جائیدادیں ہتھیانے کی خاطر کورٹ کچہریوں میں گھسیٹ رکھا ہوتا ہے

مگر ماتھے پہ عبادت کے مہراب سجائے پھرتے ہیں ہم نماز ایک بھی نہیں چھوڑتے مگر رشتہ داروں کے حقوق غصب کرنے میں قتل کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور وہ دولت اکٹھی کر کے ہم اولاد کے لئے چھوڑ جاتے ہیں جو اس دولت سے مستفید ہوتے ہیں اور ہم اس غصبی دولت کے سبب عذاب قبر کا ساماں دنیا میں پیدا کر رہے ہیں،آج ہم جن گھروں میں موجود ہیں ان میں ہمارے باپ دادا پردادا رہا کرتے تھے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آنے والے وقت میں ہمارے آباؤاجداد کی طرح ہمارا نام تک نہ ہو گا دنیا کی داستانوں میں، کبھی بھی کوئی شخص دنیا کی دولت کو اپنے ساتھ قبر میں نہیں لے کرگیا مگر وہی غیر قانونی طریقہ سے حاصل کی گئی دولت آخرت میں احد پہاڑ کی مانند ثابت ہو گی، آپ جو صدقہ خیرات دوران زندگی دیں گے اس کا صلہ آخرت میں پائیں گے، اس لئے آخرت کیلئے کرنسی اکٹھی کریں نا کہ دنیا کیلئے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی

بات ہو رہی تھی ملک میں غربت افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے بھیک مانگنے کے رجحان میں اضافہ کی تو یہ زیادہ غربت کی وجہ سے ہو رہا ہے مگر پاکستانی قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے ملک سے بے روزگاری ،غربت کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کئے بالکل اسی طرح جس طرح 2018 سے قبل انتخابی مہم میں پی ٹی آئی کے کپتان نے کئے تھے،اب کپتان کو اقتدار میں آئے اڑھائی برس یعنی ان کی حکومت کا نصف دورانیہ گزر چکا ہے ،لیکن موصوف نے چند شہروں میں لنگر خانے اور آرام گاہیں بنوائی ہیں،

جہاں سے بے روزگار افراد کھانا کھا سکتے اور آرام گاہوں میں رہ سکتے ہیں،کپتان جی شاید آپ کو پتہ نہیں کہ آپ کے ان شروع کردہ منصوبہ جات سے تو صرف ایسے دو سے تین فیصد لوگ مستفید ہو رہے ہیں،جبکہ اب بھی ایسے93 فیصد کے لگ بھگ لوگ ملک میں کسمپرسی کی حالت میں فٹ پاتھوں اور کھلے آسمان تلے رہ کر بھیک مانگ کر زندگی کے دن گزاررہے ہیں،ان میں 81 فیصد بزرگ خواتین افراد شامل ہیں، کپتان جی ایسے طبقہ کے لئے سنجیدہ ہوکر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،ورنہ ریاست مدینہ میں ایسے بے یارو مددگار طبقے کی لاشیں حسب معمول بڑے چھوٹے شہروں کے چوک چوراہوں اور فٹ پاتھوں سے ملتی رہیں گی۔ جس کا حساب حاکم وقت کو آخرت میں دینا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں