سب قیامت کے ہیں آثار 170

سب قیامت کے ہیں آثار

سب قیامت کے ہیں آثار

آواز /ڈاکٹر مہر محمد بلال کلاسرہ
ہم قیامت سے بہت قریب ہو چکے ہیں۔کون جانے ہماری تیسری اور چوتھی نسلیں اکیسویں صدی کے خاتمے کے قریب براہ راست قیامت کی ابتدا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں! اہل ایمان کے دائمی دشمنوں (المائدہ ۴۸) کے نمائندہ ظالمین و مسرفین و مترفین کا فی زمانہ عروج وفروغ و قہر و دبدبہ یہی بتاتا ہے۔
فرانس کے سابق صدر ژاک شیراک نے ۴۰۰۲ میں اعلان کر دیا تھا کہ دنیا جس خطرناک دور میں داخل ہوچکی ہے اس نے اسے اور زیادہ مہلک،اور پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ جنوری ۶۱۰۲ میں امریکی مؤرخ فِرِز رِچرڈ اِسٹرن نے اپنے انتقال سے چھے ماہ قبل یعنی آج سے دو سال پہلے برن (جرمنی) میں اپنے ایک لکچر میں اعتراف کیا تھا کہ’’ہم آج شدید اضطراب و بے چینی کے عہد میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔موجود ہ صورت حال سنجیدگی کی متقاضی ہے کیونکہ حالات بہت خراب ہیں‘‘۔انہوں نے کہا تھا کہ’’اُن کے بچپن میں عوام آمریت اور فاشزم کے خلاف لڑ رہے تھے

آج جمہوریت میں وہی سب ہورہا ہے جو ڈکٹیٹر شپ اور فاشیت میں ہوتا تھا۔‘‘انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ ’’میڈیا پر(آج) ان لوگوں کا غلبہ ہے جو مقصدی صحافت کی الف بے نہیں جانتے۔آج پوری دنیا تنگ دلی اور تنگ ذہنی کے آزار کا شکار ہے۔آج حکمرانوں کی اکثریت احمق،جاہل، ظالم،اخلاق دشمن اور عوام دشمن ہے۔‘‘
مشہور شاعر و افسانہ نگار اقبال مجید نے اپنے یار جانی عابد سہیل (مرحوم)کا ایک خط پڑھ کر جو نظم کہی تھی،جو عابد سہیل کے انتقال (۲ جنوری ۶۱۰۲)کے بعد اخباروں شایع ہوئی تھی،اس میں لکھا تھا:’’۔۔۔کہ جب ڈانگے سے کے ایم پانیکر نے یہ کہا تھا۔کہ ہندوستان طبقوں پر نہیں ذاتوں پہ قائم ہے۔تو اس ننگی حقیقت کو سبھوں نے خوب جھٹلایا۔مگر وہ آج بھی سچ ہے۔انہیں پسماندہ ذاتوں کو لُبھا کر ہی تو مودی نے۔یہ خونیں کھیل کھیلا ہے۔اب اکثر سوچتا ہوں۔کہ جیسے مودی نے خود اپنے اونچے نام کی خاطر۔دلت ذاتوں کو عیاری سے۔اک سیڑھی بنایا تھا۔کہیں ویسے ہی میرے عہد کے ان سوشلسٹوں نے۔ملاکر ہاتھ ’ابن زیاد‘ سے خفیہ طریقوں سے۔’یزید وقت‘ کی چھپ کر دلالی تو نہیں کی تھی۔۔‘‘ اور روس نژاد امریکی فلسفی، دانشور اور متعدد کتابوں کے مصنف ’آئن رَینڈ‘ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’کمیونزم اور سوشلزم میں کوئی فرق نہیں ہے

سوا اس کے کہ اپنے مشترکہ و متعینہ نصب العین تک پہنچنے کے لیے ان کے اختیار کردہ راستے مختلف ہوتے ہیں۔کمیونزم انسانوں کو طاقت کے بل پر اپنا غلام بناتا ہے اور سوشلزم ’ووٹ‘ کے ذریعے!دونوں میں وہی فرق ہے جو قتل اور خود کشی میں ہے!‘‘ پارلیمانی جمہوریت میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعیڈاکوؤں،لٹیروں اور قاتلوں کو بر سر اقتدار لاتے ہیں کہ آؤ اور لوٹو،مارو اور کھاؤ اور روکنے ٹوکنے والوں اور صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو من مانے طریقے سے ٹھکانے لگا دو۔ آغا شورش کاشمیری نے قریب نصف صدی قبل یہ شکوہ کیا تھا کہ ’’صحافی چلے گئے،منشی آگئے۔۔سارے ملک میں کوئی (ایسا) صحافی نہیں رہا جو یہ کہہ سکے کہ اسے اپنے قلم پر اعتماد ہے۔۔(اب تو) کلرک جرنلسٹ ہو گئے ہیں

۔۔میں (تو) اس تصور ہی سے گھبرا اُٹھتا ہوں کہ مستقبل کا مؤرخ ہمارے بارے میں کیا راسئے قائم کرے گا؟‘‘لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ُ آپ بھی پونیہ پرسون باجپئی،ملنڈ کھانڈیکر،رویش کمار،ابھیسار شرما اور زی نیوز اور اے بی پی نیوز وغیرہ نیز ملک میں غیر اعلان شدہ ایمر جنسی،آمریت اور فسطائیت کے حالات پر براہ راست کیوں نہیں لکھ رہے ہیں؟ہم اب بھی اگر ورکنگ جرنلسٹ یا کسی روزنامے کے کارکن ایڈیٹر ہوتے اور روزانہ ایک عدد اداریہ لکھنے کی ذمہ داری ہوتی تو ہم بھی ہر روز ہر نئے واقعے،سانحے،حادثے اور واردات پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہوتے لیکن باعتبار عمر سبکدوش ہونے کی بنا پر ہم ان پابندیوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم ماضی اور حال کی بنیاد پر مستقبل کی تاریخ سمجھنے

،دیکھنے اور اپنے قاری کو سمجھانیا ور دکھا نے کی کوشش میں مصروف ہیں!’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور (مصیبت پر)صبر کرو کہ اللہ تو صبر کرنے والوں ہی کے ساتھ ہے (۱)
اللہ کسی قوم کو دی ہوئی نعمتوں کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی (یعنی شکر ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کرنے لگتی ہے)‘‘(۲)
’’اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے پھرنے والی مخلوق میں بدترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں‘‘(۳)
اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ (ہر طرح کی) قوت حاصل کرو اور اور ان کے مقابلے کے لیے ’رباط ا لخیل‘مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے تم اللہ کے دشمنوں کو،اپنے دشمنوں کو اور (اپنے) اُن دوسرے اعدا کو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں) خوفزدہ رکھ سکو (اس مقصد سے) تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور(پھر) تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا‘‘ (۴)’’اور(پھر) تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں