ہر پاکستانی آپریشن رد الفساد کا سپاہی !
تحریر:شاہد ندیم احمد
سیاست میں حصہ لینا اور سیاسیحالات سے باخبر رہنا شہریوں کا حق ہے،تاہم ہمارے ہاں غیر سیاسی، قومی نوعیت کے معاملات پر بے دھڑک بے سروپا تبصرے اور قیاس آرائیاں کرنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں سب اداروں کا اپنا میکنیزم ہے اور ان میں پاک فوج کے ادارہ اپنے قواعد و ضوابط پر سب سے زیادہ کاربند ہے،تاہم پچھلے کچھ عرصے سے ملک و قوم کے محافظ اداروں کے حوالے سے بعض لوگوں نے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے، وہ کسی بھی طرح وطن دوستی کی ذیل میں نہیں آتا ہے، یہ وہی ادارہ ہے کہ جس کے جوانوں اور افسروں نے وطن عزیز کی
طرف بڑھتے شعلوں کو اپنے لہو سے نہ صرف بجھایا ،بلکہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے امن بحال کیا ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے آپریشن ردالفساد کے چار سال مکمل ہونے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فورسز نے عوام کی مدد سے دہشت گردی کو شکست دی اور بڑے بڑے دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ کردیا ہے، آپریشن رد الفساد کا دائرہ کار پورے وطن پر محیط ہے اور ہر پاکستانی اس آپریشن کا سپاہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان میں شروع کی گئی، امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا خمیازہ، اپنی سرزمین پر بدترین دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے،تاہم اس دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پاک فوج نے اپریشن راہ راست کا 2008ء میں آغاز کیا گیا، جو اپریشن راہ نجات کے مرحلے میں داخل ہوا، یہ اپریشن زیادہ تر شمالی‘ جنوبی وزیرستان اور شمالی علاقہ جات میں ہوئے،اس کے بعد اپریشن ضرب عضب اور اپریشن ردالفساد کا آغاز ہوا ،جس کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کیا گیا
اور اس کے ماتحت کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبرفور بھی شروع کئے گئے،ہماری سکیورٹی فورسز نے ان اپریشنز میں شہریوں کی حفاظت اور پُرامن پاکستان کی خاطر بیش بہا جانی قربانیاں دیں اور آخری دہشتگرد کے مارے جانے تک اپریشن جاری رکھنے کے عزم پر کاربند رہے،یہ سکیورٹی فورسز کی بے مثال قربانیوں اور عزم و حوصلہ کا ہی نتیجہ ہے کہ سرزمین پاک سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو چکا ہے،اگرچہ دہشت گردی کے خلاف اپریشن کے دوران کچھ شرپسند عناصر سرحد پار فرار ہو ئے جو پاکستان کے لیے مسلسل خطرہ ہیں،تاہم پاکستان سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے نہ صرف افغانستان، بلکہ ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگا رہا ہے، تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حمل کو روکا جا سکے۔
آپریشن رد الفساد کو چار سال مکمل ہو چکے ہیں تو ملک پُرامن ہے، کھیل کے میدان آباد ہیں، غیرملکی ٹیمیں ملک میں کھیلوں کے لئے آ رہی ہیں،پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے ،عالمی قیادتیں اور ادارے بھی ہماری سکیورٹی فورسز کی امن کی کوششوں کا اعتراف کررہے ہیں۔ یواین سیکرٹری جنرل انتونیوگوئٹریس کے بقول پاکستان کا امن کی طرف سفر شاندار ہے، جبکہ برطانوی جنرل سرنکولس کارٹر جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے کلیئر کرانا پاک فوج کی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ عساکر پاکستان نے دہشت گردوں اور انکے
سرپرستوں و سہولت کاروں کا چیلنج نہ صرف قبول کیا ،بلکہ انکی گردنیں ناپنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسے بجا طور پر ٹیررازم سے ٹورازم کا سفر قرار دیا ہے،تاہم یہ سب کچھ ردالفساد میں قربانیوں کی بدولت ممکن ہو اہے،وطن عزیز میں امن و آشتی کے خوشگوار چلنے والے جھونکے سکیورٹی فورسز کے عزم و حوصلہ کے مرحون منت ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ پاک فوج ہر آزمائش میں نہ صرف پوری اُتری ہے،بلکہ ملک کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی حفاظت کیلئے شب و روز مصروف عمل ہے،
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنا کام کر رہے ہیں؟ اس وقت بھی کچھ سیاسی اور غیرسیاسی لوگ جلسے جلسوں میںاداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ریاستمخالف پروپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں، ملک کے حساس اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے، تر جمان ادارہ کے ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کا بھی فرض بنتا ہے کہ دلیل وحقائق کے ساتھ انہیں جواب دیتے ہوئے سخت رویہ بھی اختیار کرنا چاہئے ،
تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہو سکے ،یہ اداروں کے خلاف سرعام بولنے والے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے فسادی داعش سے بھی زیادہ خطرناک ہیں،اگر ہر پاکستانی رد الفساد آپریشن کا سپاہی ہے تو ہم سب کو اپنے ملک کیلئے کام کرنا ہوگا،ملک مخالف ایجنڈے کو مل کر ناکام بنانا ہو گا ، مگر ان ہیروز کو فراموش نہیں کرنا ہو گا ، جنہوں نے آپریشن رد الفساد کو اپنا لہو دے کر کامیاب بنایااور عوام امن کی فضاء میں سکون کا سانس لینے لگے ہیں