زندگی کیا ہے؟ 437

زندگی کیا ہے؟

زندگی کیا ہے؟

تحریر: علی عبداللہ
زندگی کیا ہے؟ ایک عام اور سادہ سا جواب یہ ہے کہ غذا کی تلاش، نسل کی بڑھوتری اور اپنی بقا- لیکن کیا یہی زندگی ہے اور واقعتاً اتنی سادہ بھی ہے؟زندگی کیا ہے؟ جب بھی اس پر غور کرتا ہوں تو مجھے ہرمن ہیسے کا افسانہ “Flute Dream” یاد آنے لگتا ہے-
“موت زندگی ہے اور زندگی موت، یہ ایک دوسرے کی چاہت کی لافانی اور سنگ دل جدوجہد میں اس طرح گندھے ہوئے ہیں کہ یہی حرف آخر ہے اور یہی دنیا کا مطلب- وہیں سے اشارہ ملتا ہے جو ساری پریشانی کا خاتمہ کر دیتا ہے، یہیں سے وہ سایہ جنم لیتا ہے جو ساری خوشیوں اور خوبصورتی پر چھا جاتا ہے اور اپنی تاریکی کی چادر اس پر تان دیتا ہے-لیکن خوشی اس تاریکی سے اور بھڑک کر خوبصورت و توانائی سے ابھرتی ہے اور محبت اس سیاہ رات میں اور زیادہ لشکارا مارتی ہے-“پھر سوچتا ہوں کہ زندگی جدوجہد کا نام ہے، اس سے ایک اور خیال ذہن کے کینوس پر ابھرتا ہے،
Old man and the Sea
ہیمنگوے کا یہ بوڑھا زندگی کو جدوجہد کا نام دیتا ہے چاہے ناکامی ہو یا کامیابی- لیکن صرف جدوجہد… بدلے میں ناکامی ملے تو اس پر بھی مطمئن ہو جاؤ، مگر اندر کی آواز کہتی ہے، “نہیں! یہ سوال کا مکمل جواب نہیں ہے-” زندگی کیا ہے؟ فلسفی بحث کرتا ہے مگر کسی نتیجے پر پہنچنا دشوار، شاعر دیوان لکھ مارتا ہے مگر ہر دفعہ اسے زندگی کا ایک نیا روپ دکھائی دیتا ہے، دانشور سوچ میں مبتلا ہے اور ایک عام آدمی اسے پہچانے بغیر بس چلتا چلا جا رہا ہے- زندگی ایک ایسا سراب ہے جو اپنی جانب مسلسل چلتے رہنے پر مجبور کرتا ہے، یا پھر زندگی کوئی آزمائش ہے، جس پر پورا اترنے کو ہر انسان اپنی کوشش میں لگا ہوا ہے؟
ایک بار پھر سوچ کی لہر ذہن میں کودتی ہے اور میرے اس سوال کے جواب میں چارلی چپلن کی بات یاد آنے لگتی ہے، اس نے کہا تھا کہ “زندگی کا مطلب” چارلی چپلن” ہے- یعنی” خود کو ترقی دینا، اپنی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کی شناخت کرنا-” یہ بات کچھ مناسب لگی مگر مکمل جواب یہ بھی نہیں ہے- آخر یہ زندگی ہے کیا؟
یہاں ایک شاعر نے کہا تھا،” زندگی ہے یا کوئی طوفان”، یعنی زندگی کو طوفان سے مماثلت دی جا سکتی ہے- طوفان جب آتا ہے تو پھر وہ کچھ لحاظ نہیں کرتا- امیر و غریب، معصوم و گناہ گار، عام و خاص، بچہ ہو یا جوان… طوفان ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے کر اڑا لے جاتا ہے- یوں زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے- ہر بدلتا روپ انسان کی خواہش، خواب، جستجو اور جدوجہد کو بے پھل کر سکتا ہے اور انسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے-
آخر یہ زندگی کس شے کا نام ہے؟ ذہن پر زور ڈالوں تو پھر “روڈ ٹو مکہ” کا ایک اقتباس یاد آنے لگتا ہے جس میں علامہ اسد نے لکھا تھا، “کیا کوئی شخص واقعی اپنی زندگی کا مفہوم جیتے جی سمجھ سکتا ہے؟ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ اپنی زندگیوں کے فلاں فلاں دور میں ہمارے ساتھ کیا حالات پیش آئے اور کبھی کبھی ہم اس کی وجہ بھی جانتے ہیں،لیکن ہماری منزل۔۔۔۔ہماری قسمت۔۔۔۔۔کا سراغ اتنی آسانی سے نہیں لگتا،کیونکہ قسمت ہمارے اندر حرکت پذیر اور ہمیں حرکت دلانے والی سب چیزوں،ماضی اور مستقبل کا مجموعہ ہے- لہذا یہ ہمارے سفر کے اختتام پر ہی خود کو آشکار کرتی ہے،

اور جب تک ہم راستے پر سفر کرتے رہتے ہیں ،یہ غلط یا جزوی طور پر ہی سمجھ میں آتی ہے-” مطلب زندگی میں ہی زندگی کا مفہوم مکمل سمجھنا ممکن نہیں ہے؟ مفہوم معلوم نہ ہو تو پھر سفر، جستجو اور جدوجہد مبہم ہو جاتی ہے-یہ سوال اب مجھے مزید کشمکش میں مبتلا کرتا چلا جا رہا ہے- بعض لوگ زندگی کو سزا سمجھتے ہیں- زندگی جب ان کو تھکاتی ہے، ان کے خواب چھینتی ہے اور انہیں بے بس کر دیتی ہے تو وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں،
“زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے، جانے کس جرم کی پائی ہے سزا کچھ یاد نہیں”-لیکن سزا کس بات کی؟ خواب پلکوں پر سجانے کی، خواہشیں دل میں بسانے کی یا پھر بہادر بن کر اس کا سامنے کرنے کا دعویٰ کرنے کی؟ نہیں سزا بلا وجہ نہیں دی جاتی- دارالعمل، دار الجزا عموماً نہیں بنا کرتا-
خیالات کا دریا، الفاظ کے بند کو مسلسل توڑتا چلا جا رہا ہے- لفظ یوں بکھر رہے ہیں کہ انہیں سمیٹنا دشوار- اب سوال کچھ سمجھ آنے لگا ہے- زندگی سفر ہو یا طوفان یا کہ آزمائش، یقیناً وہ کسی کی تخلیق کردہ ہے- عام رواج یہ ہے کہ جب کچھ بنایا جاتا ہے تو اس کا تعارفی طریقہ کار یعنی کتابچہ ساتھ رکھا جاتا ہے- جس پر اس کی تمام تفصیلات، وہ کیا ہے اور کس طرح استعمال کی جائے اور اس کے ممکنہ خطرات کے بارے آگاہی درج ہوتی ہے- اب زندگی جب تخلیق ہوئی تو لازماً اس کا بھی کچھ نہ کچھ تعارف اور طریقہ کار لازمی موجود ہونا چاہیے- یہ سوچتے ہی میں بلاتردد ایک لازوال کتاب کی جانب متوجہ ہوا تاکہ اس میں دیکھ سکوں کہ آخر یہ زندگی ہے کیا؟ چونکہ جو شے جس نے تخلیق کی وہی اس کا طریقہ کار بتاتا ہے

جیسے کسی انجینئر کی تخلیق کے بارے کوئی شاعر اس کا طریقہ کار نہیں واضح کر سکتا اسی طرح زندگی کے بارے جاننے کے لیے اسی کی جانب رجوع کرنا ہو گا جس نے یہ تخلیق کی اور پھر اپنے خاص تربیت یافتہ استاد بھی نامزد کر دیے، تاکہ ہر عام و خاص اسے سمجھ سکے- لہذا جب اس لازوال ضابطہ حیات کو کھولا، دیکھا اور پڑھا تو زندگی کے بارے پہلی تعریف یہ سامنے آئی:خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا-
اب زندگی کی حقیقت سمجھ آنے لگی تھی- میں نے مزید کھوجنے کا فیصلہ کیا کہ اسے تخلیق کرنے والا مزید کچھ تشریح کرتا ہے یا نہیں- اسی کھوج میں ایک اور صفحہ میرے سامنے عیاں ہوا جس پر درج تھا،جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے-یعنی زندگی آزمائش کی ایک صورت ہے مگر کیوں؟ اسے جاننے کے لیے زمانوں پہلے آدم و ابلیس کی داستان حقیقی اور ابلیس کا حسد جاننا ہو گا-
بس اتنا ہی پڑھا تھا کہ ہمت جواب دے گئی اور دل لرز اٹھا- سو اس لازوال ضابطہ حیات کو بند کر کے اٹھا ہی تھا کہ اچانک شاعر مشرق کی آواز گونجی،“بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جْنوں”
مزید کی اب ہمت نہیں رہی- زندگی کیا ہے؟ اب یہ سوال مبہم نہیں رہا، ہاں مگر اسے مزید سوچتا تو قلم جل اٹھتا اور صفحہ راکھ ہو جاتا، البتہ ایک بات خوب سمجھ آئی کہ زندگی ایک دلچسپ سفر ہے مگر جائے قیام نہیں-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں