’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 142

پاکستان الیکشن کمیشن کا تاریخی فیصلہ

پاکستان الیکشن کمیشن کا تاریخی فیصلہ

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 75 کے ضمنی الیکشن کے 19 فروری کو ہونے والے پورے پولنگ کے عمل کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقہ میں دوبارہ پولنگ کرانے کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں نئی تاریخ رقم کی ہے کیونکہ پاکستان میں ایسا فیصلہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک میں پہلی بار کیاگیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 فروری کے پولنگ کے روز پولنگ اسٹیشنز،اور پولنگ کے عملے کیلئے سکیورٹی کے مناسب اقدامات نہ کرنے پر کمشنر گوجرانولہ،آر پی او گوجرانولہ،کوفوری طور پر تبدیل کرنے،اور ڈی پی اوسیالکوٹ ،ڈی ایس پی، اور اسٹنٹ کمشنر کو معطل کرنے کی ہدایت کی ہے ،پی ای سی کے فیصلے پر پاکستان مسلم لیگ ن بگلیں بجا رہی ہے کیونکہ کہ این اے 75 میں 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کے احکامات پر مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو تقویت ملی ہے، کیونکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کہہ رہی تھی

کہ بیس پولنگ سٹیشنوں کے پولنگ عملے کو حکومتی مشینری نے ،6 گھنٹے تک یرغمال بنا کر حلقہ کے نتائج تبدیل کرنے کی سازش کی ہے،مسلم لیگ ن اس بنا پر پورے حلقہ میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ بھی کررہی تھی جو پورا ہوگیا ہے اب اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن کی قیادت کہہ رہی ہے کہ 2018 کے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی اسی طرح کی دھاندلی کرکے حکومت میں آئی تھی اس لئے کپتان اور اس کی کابینہ دھاندلی زدہ اور سلیکٹڈ ہے جسے وہ (اپوزیشن) تسلیم نہیں کرتی اسی لئے اپوزیشن حکومت کو گرانے کیلئے احتجاج کررہی ہے اور26مارچ کواسلام آباد میں لانگ مارچ اور دھرنا دینے جارہی ہے تاکہ عوام کو دھاندلی زدہ اور سلیکٹڈ حکومت سے نجات دلائی جائے،اپوزیشن نے اس لانگ مارچ کو مہنگائی سے بھی منسوب کردیا ہے،سو اپوزیشن 3 مارچ کو ہونے والے سینٹ الیکشن کے ساتھ 26مارچ کے لانگ مارچ کی بھرپور تیاری کررہی ہے

تاکہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکے،گو کہ پنجاب میں سینٹ الیکشن مکمل ہوچکے ہیں،الیکشن کمیشن پنجاب کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اعظم نذیر تارڈ،سید علی ظفر،ڈاکٹر زرقا،سعدیہ عباسی،ساجد میر،عرفان الحق صدیقی، اعجاز چوہدری،عون عباس،اور کامل علی آغا،سیف اللہ،سرورنیازی،مشاہد اللہ خان مرحوم کے بیٹے افنان اللہ کامیاب ہونے والوں میں شامل ہیں،جبکہ عظیم الحق منہاس اور سیف الملوک کھوکھر نے کاغذات واپس لئے ہیں، کامیاب ہونے والوں کا اب نوٹیفکیشن ہونا باقی ہے۔
سندھ،بلوچستان،کے پی کے اور اسلام آباد کے لئے سینٹ کا پولنگ ہونا ہے، اصل معرکہ اسلام آباد کی نشست پر صدابہار وفاقی وزیر حفیظ شیخ اور پیپلز پارٹی و اپوزیشن کے متفقہ امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مابین ہے ،یہ نشست کون جیتے گا یہ کہنا تو قبل ازوقت ہے اس کا فیصلہ تو پولنگ کے بعد ہی ہوگا تاہم سینٹ کی اس نشست پر مقابلہ خوب ہو گا اور اپوزیشن اس حوالے سے بلند بانگ دعوے بھی کررہی ہے،اور کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے امیدوار کو ہر حال میں شکست دیں گے،اپوزیشن قیادت یہ بھی دعویٰ کررہی ہے کہ پی ٹی آئی کے بیس ارکان اسمبلی یوسف رضا گیلانی کو سپورٹ کریں گے، لیکن حکومت بالخصوص پی ٹی آئی کی قیادت مطمئن ہے، اور حفیظ شیخ کی کامیابی کیلئے پرامید بھی ہے۔
صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو وہاں سے سینٹ کی گیارہ نشستوں پر 17 امیدوار میدان ہیں، ان میں گیارہ کاتعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے،ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے دو،دوجبکہ جی ڈی اے اور تحریک لبیک پاکستان کا ایک، ایک امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہا ہے،ٹیکنوکریٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے دو پی ٹی آئی اور تحریک لبیک کا ایک ایک امیدوار مقابلے میں ہے،خواتین کی مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ایک امیدوار میدان میں ہے جبکہ پی ٹی آئی نے کسی خاتون امیدوار کو سندھ میں ٹکث نہیں دیا،بات کی جائے اگر بلوچستان کی تو یہاں پی ٹی آئی کوبڑا جھٹکا لگا ہے ، کیونکہ ذرائع کہتے ہیں پی ٹی آئی کے نامزد واحد امیدوار ظہور آغا سینٹ الیکشن سے دستبردار ہوگئے ہیں، اور وہ جنرل نشت پر کاغذ واپس لینے کیلئے خود ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش ہوئے، جنرل نشست پر پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار مینا خان آفریدی،

،نجیب اللہ خٹک،آزاد امیدوار سینٹر بیرسٹر سیف،ازاد امیدوار شکیل آفریدی اور پی ٹی آئی کے دوست محمد خان،آزاد امیدوار نصراللہ خان وزیر،دلروزخان،پی ٹی آئی کی فرزانہ جاوید بھی دستبردار ہونے والوں میں شامل ہیں،اس طرح حکومت اور اپوزیشن نے 3مارچ کو ہونے والے انتخابات میں اپنے اپنے کھلاڑی،جیالے،متوالے،میدان میں اتار دئیے ہیں، توجہ طلب امر یہ ہے کہ سینٹ الیکشن میں پارٹیوں نے اکثریت ٹکٹ چھوٹے ورکروں کی بجائے سرمایہ داروں،جاگیرداروں،اور وڈیروں کو دئیے ہیں جنہوں نے اپنی جیت کے لئے تجوریوں کے منہ کھول دئیے اور وہ بکاؤ ارکان اسمبلی کی تلاش میں نکل پڑے ہیں اور پچھلے سینٹ الیکشن کی طرح اب کی بار بھی بڑے ایپ سیٹ کے امکان ہیں،جن کے بعد پھر ہارنیوالی سیاسی جماعتیں ماضی کی طرح سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کے لئے قانون میں تبدیلی کا واویلا کریں گی اور پھر دھاندلی دھاندلی کا شور مچائیں گی۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی این اے 75 ڈسکہ کے دوبارہ الیکشن کی،جس بارے الیکشن کمیشن نے حکم جاری کیا ہے، جبکہ 19 فروری کوپولنگ کے روز2سیاسی کارکنوں کی شہادت،اور8کارکنوں کے زخمی ہونے کے بعد حلقہ کے اکثر علاقوں میں دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں کشیدگی پائی جارہی ہے، چونکہ اب اس حلقے میں دوبارہ خوب میدان لگنا ہے، پی ٹی آئی اور اپوزیشن قیادت نے سینٹ الیکشن سے فارغ ہو

کر اس حلقہ میں اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے پڑاؤ ڈالناہے،جس سے تناؤ اور بڑھے گا تو ضرروت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی نگرانی میں کشیدگی والے علاقوں میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کرائے،اور دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے کارکنان کو صبر تحمل سے الیکشن مہم چلانے کادرس دیں اور انہیں امن امان قائم رکھنے کا پابند بنائیں،حلقہ کے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ الیکشن کو الیکشن سمجھ کرلڑیں اسے جنگ کا میدان نہ سمجھیں، تاکہ مزید کوئی دلخراش واقعہ پیش نہ ائے،اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر 19فروری کی طرح دوبارہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے جس کے ذمہ دارسیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ عوام بھی ہونگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں