"تمام پیشوں کا سردار پیشہ تجارت" قول رسولﷺ 325

عالمی عدالت اور عالمی قوانین کیا صرف مسلم ممالک و مسلم رہنماوں کے مواخذے ہی کے لئے ہیں؟

عالمی عدالت اور عالمی قوانین کیا صرف مسلم ممالک و مسلم رہنماوں کے مواخذے ہی کے لئے ہیں؟

نقاش نائطی
فلوریڈابحری اڈے پر حملہ،امریکی کنبوں کا سعودی عرب پر مقدمہ سعودی عرب نے خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی رپورٹ مکمل مسترد کردی نائین الیون امریکی ٹوین ٹاور حملہ کے بعد اس وقت کے صدر امریکہ جورج بش کا عوامی سطح سب سے پہلا بیان یہ امریکہ کے خلاف دہشت گردی کروسیڈ وار کے مترادف عمل ہے۔ گویا پہلی مرتبہ صدر امریکہ کے دل میں پنپ رہی مسلم دشمنی ان کی زبان سے جگ ظاہر ہوچکی تھی اور پھر صاحب امریکہ نے نائن الیون کا پورا کا پورا کھیکڑا اسامہ بن لادن والے القاعدہ کے سربراہ پر تھوپتے ہوئے دنیا کی اس وقت تک اولین اسلامی حکومت افغانستان طالبان کے خلاف کروسیڈ وار یلغار کرنے کی پلاننگ شروع کردی تھی۔ یہ وہی سعودی تاجر اسامہ بن لادن ہیں جو اس وقت کےامریکی صدر جارج بش اور برطانیہ کے اس وقت کے سابق وزیر اعظم جوہن میجر کے بہترین دوست اور شریک تجارت بھی کہے جاتے تھے

۔ اور 1980 کے دیے میں،اس وقت کی عالمی طاقت روس کے افغانستان قبضہ بعد، امریکہ کے اشارے و مدد سے روس کے خلاف افغان وار لڑنے مجاہدین کی فوج لئے سرزمین افغانستان روس کے خلاف امریکی پروکسی وار لڑریے تھے۔پہلے تو نائن الیون دہشت گردی کا ذمہ دار ٹہرا 50 سے زائد ملکوں کا عالمی حربی طاقتوں کا جماوڑا لئے افغانستان کی عوامی منتخب حکومت ہرحملہ کر افغانستان کو تباہ و برباد کیا گیا پھر اس وقت کی حربی عرب قوت صدام حسین کو خطرناک بائیلوجیکل ہتھیار رکھنے کا الزام لگا عراق پر یلغار کر عراق کر تباہ و برباد کیا گیا اور پھر عرب اسپرنگ کا ایک خطرناک سازش رچتے ہوئے

ایک اور حربی عرب قوت لیبیا شام سوریہ جیسے عرب ملکوں کو تباہ و برباد کیا گیا اور نائین الیوں میں مارے کئے کچھ ہزار امریکیوں کے خون کے بدلہ جورج بش کےاعلان کردہ کروسیڈ وار صیہونی مسیحی عالمی سازش کے تحت افغانستان عراق لیبیا شام و سوریہ جیسے مسلم ممالک کے پندرہ سےبیس لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا لاکھوں مسلم نساء کی عزتوں کی پامالی کی گئی اور کروڑوں مسلمانوں کو بےگھر کیا گیا آج نائین الیون امریکی حملہ کے بعد اگر غیر جانبدار ہوکر صحیح معنوں جائزہ لیا جائے تو یہ چند حقائق اظہر من الشمس کی طرح عقل و فہم رکھنے والے عالم کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کم و بیش تین ارب ہم مسلم امہ کے سامنے آتی ہے اولا” نائین الیون امریکی حملہ القاعدہ یا اسامہ بن لادن نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود امریکی سی آئی اے اسرائیلی موساد کا ہم عالم کی مسلم امہ کے خلاف خود انکی سرزمین امریکہ ہر ایک فالس فلیگ آپریشن تھا

خود امریکی تھنک ٹینک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے سرزمین امریکہ پر نائن الیون جیسے اتنے بڑے دہشت گردانہ حملہ کی نہ اسامہ بن لادن میں اور نہ القاعدہ میں اتنا دم خم ہے کہ امریکی انٹیلیجنس آور اسرائیلی موساد کے بغیر اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ کرسکیں۔ تو گویا اپنی ہی سرزمین پر نائین الیون جیسا فالس فلیک آپریشن کرکے مسلمانوں کی عالمی حربی قوتوں کو ختم کرنے کی سازش خود یہود و نصاری نے رچی تھی۔ ثانیا” جس خطرناک بایولوجیکل ہتھیار کے بہانے عراق پر حملہ کیا گیا تھا عراق کی تاراجی اور اس پر مکمل قبضہ بعد بھی سر زمین عراق پر وہ خطرناک ھتیار نہیں مل پائے تو اس کا مطلب بھی صاف یے کہ ایک جھوٹے امریکی مفروضہ پر، عالمی حربی قوتوں نے مسلم ملک عراق کو تباہ و برباد کیا تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے عالم سے برطانیہ کے پی ایم ٹونی بلیر معافی مانگ چکے ہیں۔

ثالثا” 2010 دسمبر سے شروع ہوا عرب اسپرنگ، جس نے موجودہ دور کے لائن آف دی ڈیسڑڈ کہے جانے والے حربی لیڈر کرنل محمد قذافی اور اس کے ملک لیبیا کے ساتھ دمشق سوریہ عراق کو تاراج و برباد کرتے ہوئے کئی لاکھ عربوں کی شہادت کا ذمہ دار بنا تھا وہ عرب اسپرنگ بھی صیہونی مسیحی امریکہ اسرائیل عالمی سازش کا نتیجہ ہی تھی۔ کویت اومان قطر عرب امارات بحرین سعودیہ سمیت جو عرب ممالک عرب اسپرنگ زد میں آنے سے بچے رہ گئے تھے وہ ایسے ہی نہیں بچ گئے تھے بلکہ چالیس پچاس سال کی پیٹرو ڈالر بچت کو اپنی بادشاہتوں کی حفاظت کے لئے،

عالمی غنڈہ ٹیکس کی صورت وقت کے سب سے بڑے دہشت گرد، صاحب امریکہ کے آگے نذرانہ کی صورت پیش کرتے ہوئے، وقت کی معشیتی طور تباہ حال عالمی قوت امریکہ کو معشیتی طور مستحکم کرتے ہوئے،خود کےخزانے خالی کر، معشیتی طور تباہ حال ہوکرآمان پاگئے تھے۔جس کا ثبوت صرف ایک سالہ کورونا قہر کہرام میں پاکستان و بنگلہ دیش جیسے چھوٹے اور کمزور و غریب ملک نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے اپنی اسحکامیت کے ساتھ عالمی نقشہ پر اپنی پوری شان کے ساتھ موجود ہیں، وہیں پر ایک وقت کی مالدار ترین مملکت کویت، اومان یواے ای بحرین اور سعودی عرب معشیتی طور تباہ و برباد ہوتے ہوئے دیوالیہ ہونے کی کگار پر، اپنی عوام کو لامتناہی ٹیکس کے بوجھ تلے دبائے جینے پر مجبور کئے جاریے ہیں

افغانستان و کئی ایک عرب ملکوں کی بے مطلب تاراجی و بربادی کے لئے کیا وقت کے سب سے بڑے دہشت گرد صاحب امریکہ کو عالمی عدالت کے کٹہر میں کیا لا کھڑا نہیں جاسکتاہے؟ مانا کہ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلمان یہود و نصاری کے آگے اتنے لاچار سے ہوکر رہ گئے ہیں کہ انہیں عزت سے جینے دینے کے لئے، یہود و نصاری کی ان تمام سازشوں کو نظر انداز کر جینا پڑ رہا ہے۔ بیسویں صدی کی ابتداء انہی عرب حکمرانوں کے جد امجد کی، خلافت عثمانیہ سے غداری کر اس وقت کی عسکری قوت برطانوی سامراج سے سانٹھ گانٹھ کے نتیجہ ہی میں کمزور ہوتی خلافت عثمانیہ کے پس منظر میں مسلم امہ کو مختلف فرقوں گروہوں میں بانٹتے ہوئے کمزور کر ان کے قدموں پر صدا رکھنے کی

جو کوشش یہود و نصاری نے کی تھی مالک دو جہاں رزاق کل مکان نے ان عرب حکمرانوں کو تیل کی دولت سے مالا کرتے ہوئے دوبارہ عالم میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کا جو موقع دیا تھا ان عرب حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کے لئے انہیں اسلام دشمن صیہونی و مسیحی قوتوں کے آگے جھکتے ہوئے رزاق دو جہاں کی عطا کردہ دولت کو ان پر لٹانا شروع کردیا تو انہیں ان ارضی خداؤں کے آگے وہ مالک حقیقی ان عربوں کو جھکاتے اور انکا غلام بناتے چلے گئے۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی چھوٹا سا غریب ملک پاکستان اپنے ناعاقبت اندیش کرپٹ سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیز سے، اس کی اپنی استطاعت سے زیادہ مقروض بناکر رکھ دئیے گئے ملک پاکستان کے موجودہ عسکری و عوامی حکمرانوں نے،

کس طرح ان عرب شاہوں کے ساتھ ہی ساتھ عالمی صیہونی و مسیحی حکمرانوں کے خلاف سینہ سپرد ہونے کی جو پالیسی اپنائی ہے وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ عش عش کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ایک عالمی اوصول جو کسی بھی مجبوری کے ساتھ جب اوصول و اقدار کے خلاف ایک مرتبہ اپنے دشمن کے آگے جھک جاتا ہے تو اس کا دشمن دل مانگے مور کے طرز انہیں اپنے آگے اور جھکاتا چلا جاتا ہے۔شاید عالم کی اولین ایٹمی طاقت پاکستان کو اس کا ادراک بخوبی ہوگیا تھا اس لئے اتنے ڈھیر سارے قرضوں کے باوجود، عزت و توقیریت کے ساتھ، اور شان بےنیازی کے ساتھ جینے کا تہیہ کرلیا ہےاور الحمد للہ وہ اس میں کامیاب لگتا ہے۔ کیا ان عرب حکمرانوں کو ان سب باتوں کا ادراک نہیں ہے؟ اگر وہ ان یہود

و نصاری امریکہ و اسرائیل عالمی قوتوں کا مقابلہ کرنے کی سکت اپنے میں نہیں پاتے ہیں تو ان یہود و نصاری قوتوں کے عالمی منصب اقتدار کو چیلنج کرتی ان کے مدمقابل معشیتی و حربی قوتوں سے، حربی ساز باز کئے اپنے دفاع کا کوئی مناسب بندوبست کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کے رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کے وہ قول “الکفار لااعتبار” کیا بھول گئے ہیں؟ پھر کیوں کر مومن مسلمان ہونے کے ناطے اپنے بھائی مسلمان ملک، عالم کی اولین مسلم ایٹمی قوت پاکستان پر مکمل بھروسہ و اعتماد کرنے کے بجائے ان کے اپنے ازلی دشمن اسلام یہود و نصاری پر بھروسہ و تکیہ کئے جی رہے ہیں؟

ابھی حال ہی کی تو بات ہے ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کے سر زمین عراق ڈروں ہوائی حملہ میں مارے جانے کے بعد،اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کو مارنے یا مروانے کا اقبال جرم کیانہیں کیا تھا؟ کیا سوریہ کے صدر بشار حافظ الاسد کو جان سے مارنے کی امریکی سابق صدر ٹرمپ کی سازش سے پردہ کیانہیں اٹھایا گیا تھا؟ کیا امریکی صدر قتل کروانے جیسے کسی بھی اقسام کے جرائم کے لئے قابل مواخذہ نہیں ہیں؟ کیا عالمی عدالتیں صرف مسلم ممالک یا مسلم حکمرانوں کے مواخذے کے لئے ہی کیا قائم کی گئی ہیں؟ یا عالمی طاقت صاحب امریکہ یا اسکا بغل بچہ یا جمبورا چھوٹا سا ملک اسرائیل، قتل یا انسانیت پر ظلم عظیم جیسے تمام تر جرائم کے لئے قابل مواخذہ نہیں ہیں؟ یہ کیا

عالمی قانون کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے؟ اگر عالمی قانون سب کے لئے یکساں ہیں تو پھر آج تک مجبور و بے بس نہتے فلسطینیوں پر یہود کی طرف سے ڈھائے گئے کونسے جرم پر آج تک غاصب اسرائیل کو سزا دی گئی ہے؟ یا افغانستان عراق لیبیا کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کے لئے اور لاکھوں مسلم نساء کی عزتوں کی پامالی کے لئے صاحب امریکہ کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں کب کھڑا کیا جائیگا؟ سابقہ عالمی قوت روس و مستقبل کی ممکنہ عالمی قوت چین کیا موجودہ عالمی قوت صاحب امریکہ کو اس کے عالم اسلام پر منظم سازش کے تحت ڈھائے گئے ظلم عظیم کے لئے قابل مواخذہ کرنے کی ہمت و قوت کیا پاتے ہیں؟ اور اس کا جواب نا میں ہے تو ایسے عالمی ادارے، ایسے عالمی قوانین اور ایسی عالمی عدالتوں کی ضرورت موجودہ عالمی معاشرہ کو کیوں کر باقی رہ جاتی ہے؟ یہ سب اس لئے کہ آج کل عالمی سطح پر، اسلامی ملک سعودی

عربیہ کے تعلق سے جو دو اہم قضئیے موضوع بحث ہیں اور کل تک ہر معاملہ میں سعودی حکمرانوں کو ہر جائز ناجائز عمل کی کھلی چھوٹ دینے والا صاحب امریکہ، کچھ سال پہلے کے دو مختلف جرائم پر سر زمین امریکہ سعوری حکمران ولی عہد شہنشاہ سعودی عرب اور مملکت سعودی عرب پر قانونی شکنجہ کسنے کی تیاریوں میں لگتے ہیں۔ پہلا واقعہ فلوریڈا بحری اڈے پر امریکہ زیر تدریب ایک سعودی پائلٹ کے، 4 امریکیوں کو جہنم واصل کرتے ہوئے امریکی گولیوں کا نشانہ بن، اپنے عمل کے لئے دنیا ہی میں اپنے کئے کی سزا پاچکا ہے۔اسکے اپنے ذاتی عمل کے لئے مملکت سعودی عرب کو ذمہ دار ٹہرا ،یا تو بہت بڑا تاوان قتل، سعودی حکمرانوں سے وصول کرنا چاہتا ہے صاحب امریکہ یا اس کے لئے سعودی

حکمرانوں کو ڈرا دھماکر عالم اسلام کے خلاف ان حکمرانوں سے کوئی بہت بڑی سازش پر عمل درآمد کروانے کی سازش رچتا نظر آتا ہے صاحب امریکہ۔ کیا کسی بھی فرد کو کسی کے خلاف اپنے غم وغصہ کے اظہار کا حق نہیں ہے؟ اگر امریکی سرزمین ٹریننگ لینے والا کوئی پائلٹ طالب علم اپنے ذہن و افکار میں ان نازی یہود و نصاری سازش کار صاحب امریکہ کے خلاف پل رہے ھیجان خیز تفکر کے چلتے قانون اپنے ہاتھ میں لئے کوئی ذاتی قسم کا بڑے سے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا بھی ہے اور جرم کرتے کرتے خود بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو اس کے جرم کے لئے اس کی مملکت کو قابل مواخذہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟

ثانیا” امریکی شہریت والے سعودی جرنلسٹ کے ملک ترکیہ میں سعودی ایمبیسی میں قتل کئے جانے کا واقعہ، گو کسی بھی اعتبار سے، صحیح ثابت کئے جانے کے لائق عمل نہیں ہے۔ لیکن کسی بھی ملک کے سیاسی مخالفین کواپنی سر زمین میں نہ صرف سیاسی پناہ دینے بلکہ ان ممالک کے خلاف انہیں استعمال کرنے کا صاحب امریکہ اور برطانیہ سمیت اکثر یورپی ممالک کو بڑا شوق رہتا ہے اپنے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کا عام رواج عموما رہا ہے۔ 1972میونخ جرمنی اولمپک میں آسرائلی کھلاڑیوں کو مارنے والے فلسطینیوں کو دوبئی سمیت عالم کے کئی ایک ملکوں میں گھس کر اسرائیلی انٹیلیجنس موساد نے وقفہ وقفہ سے قتل کرائے تھے اس کے لئے عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ، کیا مواخذہ کیا گیا تھا؟ مانا کہ وہ نامہ نگار امریکی شہریت رکھتا تھا لیکن کسی ملک کے مفاد کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے،اس ملک میں مطلوب تھا

ایسے شخص کو ایک تیسرے ملک میں قتل کیا جاتا ہے تو اس کے لئے اس ملک کے ہونے والے سربراہ کو، اس قتل کے ذمہ دار ٹہرایا جانا کہاں تک صحیح عمل ہے؟ جب کہ وہ اس کے قتل کئے جانے سے صاف انکار کرتا پایا جاتا ہے۔ ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کے عراق میں امریکی ڈرون سے میزائل مار شہید کئے جانے کے بعد، اسے قتل کروانے کا اقبال جرم سابق صدر امریکہ نے ڈنکے کی چوٹ پر قبول کیا تھا۔ جب اقبال جرم کرنے والے وقت کے صدر کو قابل مواخذہ نہیں سمجھا گیا ہے تو قتل کروانے سے انکار کرنے والے کسی ملک کے ہونے والے سربراہ مملکت کو اس کے، ان کئے جرم کے لئے قابل مواخذہ کیوں کر کیا جاتا ہے؟ دراصل صاحب امریکہ کی اس ملک کو عالم اسلام کے خلاف استعمال کرنے پر زور دیتی اس ملک کو بلیک میل کرتی بہت بڑی سازش لگتی ہے
ایسے میں مملکت کے مستقبل کے ہونے والے بادشاہ کو یوں سازش کے تحت گھیرتے اور اسے بادشاہ بننے دینے کے بجائے اپنے اشاروں پر ناچتے کسی دوسرے مہرےکو بادشاہ بنائے جانے کی امریکی سازش کب تک برداشت کی جاتی رہیگی؟ خدا حسن دیتا یے تو نزاکت آہی جاتی ہے مثل مصداق مستقبل کا بادشاہ بننے والی شخصیت کو بدلتے حالات کے و سازش کے تحت، اپنے بادشاہ بننے کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے، ہم جیسوں کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے، پھر بھی یہود و نصاری عالمی سازشی اذہان کو دیکھنے پرکھنے کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ “سیاست میں کوئی کسی کا دائمی دوست و دشمن نہیں ہوتا، بدلتے حالات کے تحت دوست و دشمن بدلتے رہتے ہیں” مثل مصداق مملکت کو مفاد عامہ مسلم امہ کے

پیش نظر مسلم امہ کے ازلی دشمن یہود و نصاری پر بھروسہ کرنے کے بجائے، انکے اپنے تین چار دہوں کے آزمائے ہوئے، عالمی اکلوتی ایٹمی حربی قوت مملکت پاکستان اور 2023 بعد لوزین عقد نصاری کے خاتمہ کے بعد ممکنہ ظہور پذیر ہونے والی خلافت عثمانیہ ثانیہ کے دعویدار مملکت ترکیہ پر بھروسہ و اعتماد کر، ان کے ساتھ والے چین و روس حربی عالمی قوت والے پلڑے میں جاتے ہوئے، ان یہود ونصاری قوتوں کو زک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ویسے بھی اقتدار عالم کے منصب پر براجمان صاحب امریکہ کے دن اب گنے جاچکے ہیں۔ امریکہ کے زوال بعد ہی بڑی بے شرمی کےساتھ مستقبل کی عالمی قوت روس یا چین کو بعد میں تسلیم کرنے کے بجائے،ابھی سے ان قوتوں کے ساتھ ہونے والوں کا مستقبل تابناک اور روشن لگتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں