نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 230

سیاست کی نیام میں دو تلواریں!

سیاست کی نیام میں دو تلواریں!

تحریر:شاہد ندیم احمد
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کی دوسال قید کاٹنے کے بعدعملی سیاست میں واپسی ہورہی ہے، گذشتہ روز ہونے والی ریلی نے ثابت کیا ہے کہ لاہور میں حمزہ شہباز شریف (ن) لیگ کا سب سے مضبوط اور موثر چہرہ ہیں۔اس جیل کی قید نے حمزہ شہباز کے سیاسی قد کو بڑھا دیا ہے، حمزہ شہباز کا مریم نواز سے سیاسی تجربہ کہیں زیادہ ہے۔اس تنا ظر میں کیاحمزہ شہباز،مریم نواز کی زیر قیادت سیاست کریں گے؟ حمزہ شہباز شریف کے پاس دو ہی چوائس ہیں کہ مریم نواز کے ساتھ مل کرچلیں یاخاموش ہوجائیں،لیکن حمزہ شہباز نہ خاموش نہیںرہیں گے،کیوں کہ (ن )لیگ میں کئی ایسے ارکان اسمبلی موجود ہیں جو مریم نواز کے بیانیے کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے

کہ اس وقت مریم نواز نے پارٹی نظریے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے،میاں نواز شریف کا ہاتھ بھی ان کے سر پر ہے، مسلم لیگ(ن) لیگ کی اندرونی دھڑے بندی میں مریم بی بی کے ضاصے حمایتی موجود ہیں اور ان کے خیال میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی کو ہی پارٹی قیادت کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں، لیکن عملی طور پر سیاسی کارکنان کی بڑی تعداد قیادت سے نالاں بھی ہے، کیونکہ برسوں سے پارٹی کے ساتھ کام کرنے والے سمجھتے ہیں کہ قیادت انہی لوگوں کو کرنی چاہیے جو مسلسل سیاسی عمل کا حصہ ہیں اور برسوں سے سیاسی میدان میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اس حوالے سیحمزہ شہباز کا سیاسی کنٹرول صرف لاہور تک محدود نہیں، بلکہ پنجاب بھر میں پارٹی کو منظم و فعال رکھنے میں نمایا کردار رہا ہے۔ حمزہ شہباز کی عدم موجودگی میں( ن) لیگ میں موجود ان کے مخالف دھڑوں کو بھی احساس ہو چکا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ٹویٹ، ری ٹویٹ کی حد تک مہم تو چل سکتی ہے، لیکن جب کبھی عملی سیاست اور کارکنوں کو سڑکوں پر لانے اور جلسہ گاہ کو بھرنے کی بات ہو گی تو وہاں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے بغیر عوامی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں

کہ مریم نواز نے سیاست میں مزاحمتی بیانیہ سے اپنی الگ جگہ بنالی ہے ،تاہم حمزہ شہباز کی جیل واپسی پر ہونے والی ریلی نے ثابت کر دیا ہے کہ لاہور میں کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے حمزہ شہباز شریف کے گروپ کو قیادت کرنا ہو گی، اس کے بغیر کوئی سیاسی سرگرمی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ حمزہ شہباز کی واپسی تو ہو گئی، میاں شہباز شریف کی واپسی کی تیاریاں جاری ہیں، یہ دونوں سیاسی قائدین جب میدان میں ہوں گے تو پھر یقینی طور پر پارٹی قیادت کا فیصلہ بھی ہو جائے گا ،کیونکہ اگر مستقبل کے سیاسی خاکے میں( ن) لیگ فیصلہ سازی کے معاملے میں تقسیم رہی اور ہر بڑی چھوٹی بات کے لیے لندن کی طرف دیکھتی رہی تو پھر( ن) عملی سیاست میں بہت پیچھے رہ جائے گی،تاہم میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کے بھائی اور بھائی کی عدم موجودگی میں حمزہ شہباز شریف ہی (ن) لیگ کی سٹریٹ پاور کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
سیاست میں وقت و حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ہے ،تاہم مشکل حالات میں خود احتسابی وقت کی اہم ضرورت ہے، حمزہ شہباز شریف کو بھی جیل میں رہتے ہوئے اپنے ماضی کو بغور دیکھنے کا موقع ملا ہے،اب دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں،انہوں نے میاں شہباز شریف کے زیر اثر رہتے ہوئے ہمیشہ یہی سیکھا ہے کہ ملک میں موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلا جائے،امید ہے کہ تصادم اور ٹکرائوکے بجائے سب کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے فارمولے پر عمل کریں گے۔ ایک سیاسی کارکن کے پاس جیل میں سوچنے کے لیے بہت وقت ہوتا ہے،

وہ غلطیوں پر نگاہ دوڑا سکتا ہے ،اپناجائزہ لے سکتا ہے کہ کہاں پر اس سے غلطی اورکہاں اس سے زیادتی ہوئی، کہاں اس نے میرٹ کے بجائے پسند نا پسند کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں۔ حکومت میں رہنے کے بعد انہیں جیل کے وقت نے اپنے فیصلوں پر غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں،میاں نواز شریف والا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر اپنے والد میاں شہباز شریف کی طرح سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں۔
سیاست کی بساط پر حمزہ شریف کی رہائی کی چال کے بعد میاں شہباز شریف کی واپسی واضح نظر آنے لگی ہے،اگرمیاں شہباز شریف باہر آتے ہیں تو( ن) لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی، چودھری نثار علی خان کی بھی واپسی کے ساتھ( ن) لیگ کے کئی پرانے لوگوں کی بھی واپسی ہو سکتے ہے ،ملکی سیاست میںآئندہ چھ سے آٹھ ماہ نہایت اہم ہیں، اس دوران بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں،تاہم موجودہ سیاسی حالات میں دیکھنا ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں رہتی ہیں یا نہیں؟بظاہر ایسالگتا ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب کو دیکھیں گے اور مریم نواز مرکز میں رہیں گی،

اگر مریم نواز دوبارہ سے گرفتار ہوتی ہیں ،جس کا زیادہ امکان ہے تو پھر بھی پارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، مریم نواز نے اپنے آپ کو پارٹی میں منوا لیا ہے، ایک بار پھر پارٹی کو نہ صرف زندہ رکھا ،بلکہ مخالفین کی لاکھ کوششوں اور دعوؤں کے باوجود اپنے ارکان کو بکھرنے نہیں دیاہے ،مریم نواز نے احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے دور بھاگنے والی (ن) لیگ کو جارحانہ پارٹی میں تبدیل کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اب ٹھنڈا میٹھا بیانیہ نہیں چلے گا،اس لیے مسلم لیگ (ن) کی سیاست میںدونوں تلواریں ایک ہی نیام میں رہیں گی، لیکن چلے گی وہی جس میں مخالفین کو کاٹنے کی صلاحیت ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں