’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 190

’’طب فرنگی (ایلوپیتھی) کے نقصانات‘‘

’’طب فرنگی (ایلوپیتھی) کے نقصانات‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
ہر قسم کے علوم و فنون میں مسلمانوں نے ہمیشہ قیادت کی اور بہت نامور سائنسدان پیدا کیے، چونکہ مسلمانوں کو رب کبیریا کی رہنمائی اور سرپر رحمت الٰہی کا سایہ رہا اور دنیا جہان سے اعلی ہستی نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہنمائی ملی۔ یہ علوم و فنون مسلمانوں نے پوری دنیا میں پھیلا دیئے، تبلیغ دین کیلئے جب مسلمانوں نے ہندوستان کا رخ کیا تو یہاں علمی انقلاب آ گیا اور یہ خطہ سونے کی چڑیا بن گیا، سونے کی یہ چڑیا انگلستان والوں کو برداشت نہ ہو سکی، اس چڑیا کو لوٹنے کیلئے تجارت کے بہانے یہاں دخل یابی شروع کر دی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کاروبار کی چھتری میں یہاں لانچ کی گئی،

جس نے اپنی جڑیں خوب پھیلائیں، اور ایک وقت آیا کہ سونے کی چڑیا کے تخت کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے بعد یہاں کوئی قیمتی چیز باقی نہیں چھوڑی، سب لے اڑے، بقیہ چیزوں کے ساتھ طبی کتب بھی اٹھا کر لے گئے اور یہی طبی علوم کئی سالوں تک اپنے کالجز میں پڑھاتے رہے، چونکہ فرنگی کمینگی کی حد تک سرمایہ پرست ہے، طب اسلامی جو دکھی لوگوں کی بھلائی کے جذبے پر قائم تھی اور ہے اسے تبدیل کر کے سرمایہ اکٹھا کرنے کیلئے لیبارٹریز بنائیں، ایسی دوا سازی شروع کی کہ مریض کو فوری آرام آئے اور مزید وہ بیماریوں کے دلدل میں دھنستا چلا جائے۔
طب فرنگی صرف علامتی علاج پر قائم ہے ، اکثر ادویات میں سٹیرائیڈ کا اثر ہوتا ہے، مرض کا بنیادی علاج نہیں کیا جاتا اس علاج سے مریض فوری سکون حاصل کرتا ہے، اور اسکے بدلے مرض مریض کے اندر لگاتار اپنی طاقت مضبوط کرتی ہے، اور اس طرح مریض کا سارا جسم مختلف بیمایوں کا مرکب بن جاتا ہے اور وہ تا دم آخر طب فرنگی کے شکنجے میں جکڑا رہتا ہے، بطور مثالدمہ (استھما) کی ایک قسم میں مریض کے پھیپھڑوں کی نالیوں میں بلغم گاڑھی ہو کر سٹور ہو جاتی ہے، نالیوں میں بلغم کی موجودگی سے آکسیجن کی ترسیل رک جاتی ہے،

مریض شدید تکلیف کے ساتھ سانس لیتا ہے، طب فرنگی ایسی ادویات دیتی ہے کہ پھیپھڑوں کی نالیاں کھل جاتی ہیں اور آکسیجن سپلائی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہی سلسلہ بار بار دہرایا جاتا ہے کچھ گولیاں ٹیکے اور بلغم کو باہر خارج کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ بار بار اس عمل سے پھیپھڑوں کی نالیاں کمزور ہو جاتی ہیں مرض آئے دن بڑھتا جاتا ہے، حتی کہ مریض غیر طبعی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جبکہ طب اسلامی کے طریقہ علاج سے پھیپھڑوں کی نالیوں کو نہیں چھیڑا جاتا، صرف بلغم کو نرم اور پتلا کر کے یعنی قابل اخراج بنا کر پھیپھڑوں سے خارج کر دیا جاتا ہے اور نالیوں کو مکمل صاف کر دیا جاتا ہے، مریض کی طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔ اور اسکے بعد وہ بلغم یعنی نزلہ جس سے بلغم کی شکل پیدا جاتی ہے اس کی پیدائش کو روکا جاتا ہے، اس طرح مریض مکمل صحت یاب ہو جاتا ہے اور اپنی طبعی زندگی پوری کرتا ہے۔
طب فرنگی کی ادویات قدرتی شکل میں نہیں ہوتیں بلکہ انکے نمکیات نکال کر دیئے جاتے ہیں، ایک دوا جو طب اسلامی کے طریقہ علاج میں گراموں کے حساب سے دی جاتی ہے وہ مقدار جب معدہ میں جاتی ہے تو معدہ میں موجود کلورک ایسڈ اس پر عمل کر کے جوہر بنا دیتا ہے، اسی دوا کی طب فرنگی میں جوہر کی شکل میں ملی گراموں میں دی جاتی ہے، وہ کم مقدار میں جوہر جب معدہ میں جاتا ہے تو معدہ میں کلورک ایسڈ کی کثیر مقدار اس کو زہر بنا دیتی ہے، اس طرح طب فرنگی کی ادویات کے مضر اثرات بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
طب فرنگی کی ادویات کی کثیر مقدار درآمد کی جاتی ہے اور اسقدر مہنگی ہوتی ہیں کہ ارض پاک کا بھاری زرمبادلہ صرف ہو جاتا ہے۔
طب فرنگی اپنے معالجین کو صرف اتنا علم دیتی ہے کہ وہ صرف اور صرف لیبارٹریز کے ٹیسٹ کے محتاج ہو کر تشخیص کر سکتے ہیں، اور اسکے تحت بنی بنائی دوائیوں کو ہی تجویز کر سکتا ہے خود مرض کی بنیادی وجہ کا علاج نہیں کرتے۔
مثلاً اگر مریض کے پیٹ میں،

رحم میں، چھاتی میں یا سر میں رسولی ہے تو وہ اسکو کاٹ کر نکال دیں گے، جبکہ رسولی بننے کی بنیادی وجہ قائم رہے گی۔ اسی عمل سے رسولی دوبارہ بن جاتی ہے اسی طرح اگر مریض کے گردے یا مثانے میں پتھری ہے تو طب فرنگی کا ڈاکٹر آپریشن کر کے وہ پتھری تو نکال دے گا لیکن پتھری بننے کی اصل وجہ کا علاج نہیں کرتا۔ جبکہ طب اسلامی میں رسولی ہو یا پتھری اسے ایسی ادویات دی جاتی ہیں کہ وہ پگھل یا ٹوٹ جائے اور ریزہ ریزہ ہو کر نکل جائے۔ اسکے بعد ایسا علاج کیا جاتا ہے کہ رسولی بننے کی اصل وجہ یا پتھری بننے کی اصل وجہ کو ختم کیا جاتا ہے اور مریض تا دم آخر طبعی زندگی گزارتا ہے۔
طب فرنگی کا ڈاکٹر مزاج کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم ہوتا ہے، اس مریض کے مزاج کا علم نہیں وہ سردی گرمی، تری، خشکی، جیسی عظیم سچائیوں کا انکار کرتا ہے، اسی طرح طب فرنگی کی ادویات کی تیاری مزاج سے ناواقفیت کے تحت تیار کی جاتی ہے اسی طرح ممکن ہے ایک دوا ایک مزاج کے مریض کے لئے تو شاید بہتر ہو لیکن دوسرے مریض کیلئے موت کا باعث بن جاتی ہے۔
طب فرنگی میں جسم میں موجود فضلات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا وہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے ذریعہ اس گندے مادے کو جسم انسانی میں ہی خشک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسی سے مریض کو وقتی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے لیکن مادہ جسم انسانی میں جمع ہوتا جاتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مادہ مریض کی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ بطور مثال ایک عام مرض ہے جس کو الرجی کا نام دیتا ہے، جس سے جسم غیر فطری اثرات مرتب ہوتے ہیں خارش، دانے، دھپڑ وغیرہ جب جسم میں موجود مادہ پگھلتا ہے تو وہ حرکت کرتا ہے، اسکی حرکت سے یہ علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں، مریض بہت پریشان ہوتا ہے، طب فرنگی میں سٹیرائیڈز کے ذریعے اسے دبا دیا جاتا ہے، مریض فوری سکون محسوس کرتا ہے لیکن یہی مادہ جب بہت زیادہ جمع ہو جاتا ہے تو مریض غیر طبعی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جبکہ طب اسلامی میں اس زہریلے مادہ کو پگھلا کر جسم سے خارج کر دیا جاتا ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
طب فرنگی کی تمام ادویات جسم انسانی میں موجود اعصابی نظام کو جسکا مرکز دماغ ہوتا ہے کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں، جس کے باعث مریض نفیساتی امراض کا گھر بن جاتا ہے حتی کہ غیر طبعی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، آج گھر گھر نفسیاتی مریصوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
طب فرنگی کی ادویات بہت مہنگی ہوتی ہیں چونکہ درآمد کی جاتی ہیں اور انگریزی دوا ساز اداروں کی حوس زر کے پیش نظر قیمتیں بہت زیادہ رکھی جاتی ہیں تو مریض پہلے ہی صحت سے ہاتھ دھو رہا ہوتا ہے اسکی جمع پونجی بھی اسی کی نظر ہو جاتی ہے۔ طب فرنگی کا علاج اتنا مہنگا ہے کہ ایک عام مریض بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
طب فرنگی کے اجارہ دار حکومتی ایوانوں میں قابض ہیں، محکمہ صحت کے حاکم کل ہیں ہر سال اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، لیکن مسئلہ صحت گھمبیر در گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔طب فرنگی کے رائج ہونے سے قبل لوگ کس قدر بیمار یا تندرست تھے جب صرف طب اسلامی کے ماہرین ہی خدمات سر انجام دیتے رہے تھے، اور اب جب سے حکومتی سرپرستی میں طب فرنگی نے قوموں کو جکڑ لیا تو اب کوئی گھر ایسا نہیں نا کوئی فرد یا سارا گھرانہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلاء نہ ہو۔ طب اسلامی کے ماہرین کے علاج کے باعث پہلے شوگر، کالا یرقان کینسر اور بچے کی پیدائش بذریعہ آپریشن کتنے واقعات ہوتے تھے، لوگ ان بیماریوں سے واقف ہی نہ تھے، قوت مدافعت بھرپور تھی، اب ان فرنگی ادویات نے بیماریوں کے انبار لگا دیئے ہیں،

ہر دوا زہریلی اثرات رکھتی ہیں گھروں کے گھر اجڑ رہے ہیں، محکمہ صحت کے اندر اتنے شعبہ جات بن گئے ہیں کہ گنتی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ایسی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جن کا مداوا نہیں کر پا رہے۔پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں حکماء کی تعیناتیاں کی گئیں پورے پنجاب میں صرف 140 حکماء کو تعینات کیا گیا، جنہوں نے دکھی لوگوں کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کم خرچہ میں بہت زیادہ لوگوں کا علاج کیا گیا، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب نے تصدیق بھی کر دی کہ سالانہ بجٹ 25 ہزار روپے اور مریضوں کو چیک کیا گیا کی تعداد چالیس ہزار فی مریض ایک روپے پرچی فیس کی مد میں حکماء نے 25 ہزار خرچ کر کے چالیس ہزار روپے سرکاری خزانے میں جمع کروائے جبکہ طب فرنگی کے ڈاکٹرز اربوں روپے لے

کر بھی کوئی کردار ادا نہیں کر پائے، اس کردار سے محکمہ صحت پر براجمان طب فرنگی کے افسران کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ طب اسلامی اور حکماء ان کی موت کا باعث بن جائیں گے تو محکمہ صحت پنجاب نے حکماء کی تعیناتیاں روک رکھی ہیں اور اس ظالمانہ کردار سے دکھی لوگوں کو علاج معالجہ سے محروم کر رکھا ہے یہ طب فرنگی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
طب فرنگی کے غلط علاج سے آج بچے پید اکرنے والی عورتوں کے آپریشن ہو رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل طب اسلامی کے علاج سے بچے نارمل پیدا ہوتے تھے، اب بھی جو حاملہ عورتیں طب اسلامی کا علاج دوران حمل کرتی ہیں انکے بچے بغیر آپریشن پیدا ہوتے ہیں، اور جو حاملہ عورتیں طب فرنگی کا علاج کرتی ہیں دوران حمل انکے بچوں کی پیدائش آپریشن کے بغیر نہیں ہو سکتی، مزید دیکھیں تو مادہ جانوروں کے بچے بھی آپریشن کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ کتیا، بلیاں، بھیڑیں، بکریاں، گائے، بھینس وغیرہ جو طب فرنگی سے محفوظ ہیں انکے بچے نارمل پیدا ہوتے ہیں۔ طب فرنگی کا علاج جو حاملہ عورتیں کرتی ہیں انکے بچے پیدائشی کئی بیماریوں میں مبتلاء اور بڑی تعداد میں معذور پیدا ہو رہے ہیں

جبکہ مادہ جانوروں کے بچے نارمل اور صحت مند پیدا ہو رہے ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی کیلئے صحت مند معاشرے کی ترقی کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر طب اسلامی کو فروغ دے کر انسانیت کو تباہی سے بچایا جائے۔ پاکستان 8 لاکھ ایکڑ، چولستان سمیت دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں ایسی جڑی بوٹیاں موجود ہیں، جن سے ادویات تیار کر کے ناصرف طب اسلامی کے ذریعے لوگوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اسے برآمد کر کے اربوں روپیہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی جڑی بوٹیوں کے ذریعے سستا، بے ضرر علاج کو فروغ دیا جائے، بیرونی طب فرنگی کی ادویات پر خرچ ہونے والے ہر سال اربوں روپے بچائے جائیں، جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کی بجائے ان کی افزائش کی جائے اور انکی ادویات بنا کر پوری دنیا میں بیچ کر ہر سال کھربوں روپے ارض پاک کے خزانوں کے انبار لگائے جائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں