’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 226

’’ سینٹ الیکشن اور پیسے کا کمال؟‘‘

’’ سینٹ الیکشن اور پیسے کا کمال؟‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
ملک کی کشتی تباہی کے دوراہے پر کھڑی ہے اگر اسے حکمت عملی سے نہ چلایا گیا تو یہ ڈوب جائے گی۔ کیونکہ ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، اور ملک میں غربت، بیروزگاری کا دور دورہ ہے۔ اس کے ذمہ دار عوام بھی ہیں جو ان سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں بھجواتے رہے جو قیام پاکستان سے اب تک ملک میں سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی، لیکن سب سیاستدان برسر اقتدار آ کر دوران انتخابی مہم عوام سے کیے گئے وعدے بھول گئے۔ کئی جماعتیں تو حکومت ملنے پر اپنا پارٹی منشور ہی بھول گئیں۔ جس کے نتیجہ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک ایسے گہرے گڑھے میں دھنستا چلا گیا جس سے نکلنا اب مشکل نظر آ رہا ہے،

اور کوئی معجزہ ہی اسے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، کپتان عمران خان بھی ملک کی تقدیر بدلنے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے۔ مگر ملکی سیاست کے گندھلے نظام نے ان کے گرد ایسا گھیرا ڈالا کہ وہ بھی صورت حال سنبھالنے میں بے بس نظر آ رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ ملک کا بیرونی قرضوں تلے دبے ہونا ہے، سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ ملک کو بیرونی ممالک سے قرضے دلوانے میں ہر حکومت میں عبدالحفیظ شیخ کا اہم کردار رہا ہے۔ جسے اپوزیشن آئی ایم ایف کا نمائندہ کہتی ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ سینٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کی شکست اور اپوزیشن کے یوسف رضا گیلانی کی جیت پر وزیر اعظم عمران خان دل گرفتہ ہو کر تلملاہٹ کا شکار ہوئے۔

اپوزیشن کی طرف سے ابھی یہ شور اٹھا ہی تھا کہ وہ کسی بھی وقت وزیر اعظم پاکستان سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی و پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک لا کر ملکی سیاست میں بھونچال برپا کر سکتے ہیں تو وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں کا کپتان ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے 48 گھنٹے کے قلیل وقت میں قومی اسمبلی کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر کے اپوزیشن کو امتحان میں ڈال دیا۔ اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ کپتان نے نا صرف اعتماد کا ووٹ لیا بلکہ وزارت عظمیٰ سے دو ووٹ زیادہ حاصل کیے۔ عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے، جبکہ اعتماد کی تحریک کے دوران موصوف نے 178 ووٹ حاصل کیے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے

پریزائیڈنگ آفیسر ہونے کے ناطے ووٹ کاسٹ نہ کیا جبکہ فیصل واڈا سینٹ الیکشن کے بعد قومی اسمبلی کی نشست سے دستبردار ہو گئے، اس طرح عمران خان نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر سیاست میں چھکا مار کر اپوزیشن کو چاروں شانے چت کر دیا ہے جو آئے روز دعویٰ کرتی تھی کہ جب چاہیں گے کپتان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے اسے حکومت سے چلتا کریں گے۔ کپتان کے اس اقدام سے اپوزیشن کا بیانیہ متاثر ہوا ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کے دعوے اب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اب بھی کہتے ہیں

کہ عدم اعتماد کی تحریک کا وقت ہم دیں گے اور وہ کامیاب ہوگی۔کپتان نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے ساتھ صادق سنجرانی کو چیئر مین سینٹ کیلئے امیدوار نامزد کر کے سیاسی پتہ کھیلا ہے اور اپوزیشن کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ ماضی میں صادق سنجرانی اپوزیشن کے امیدوار تھے اور وہ حکومتی اتحاد کے امیدوار کو شکست دے کر چیئر مین سینٹ بنے تھے یوں تو سینٹ میں اپوزیشن کو حکومتی اتحاد سے 5 ووٹوں کی برتری حاصل ہے اور ایوان میں 52 ممبران کا بظاہر تعلق اپوزیشن جماعتوں سے اور 47 ممبران کا حکومتی اتحاد سے ہے۔ ایک ممبر سینٹ عبداﷲ اکبر چترالی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے جس نے سینٹ الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا ، جماعت اسلامی ذرائع کہتے ہیں

کہ وہ چیئر مین سینٹ کیلئے بھی ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے۔ جماعت اسلامی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو نا اہل قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اپوزیشن کی قیادت نے ماضی میں ملک کو لوٹ کر دیوالیہ کر دیا۔ اور موجودہ حکومت میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ ملک کو صحیح سمت چلا سکے۔ ذرائع اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اپوزیشن کے کچھ سینیٹر صادق سنجرانی یعنی حکومتی امیدوار سے رابطہ میں ہیں جبکہ نا دیدہ قوتیں بھی صادق سنجرانی کو ہی دوبارہ چیئر مین دیکھنا چاہتی ہیں۔ اسی بناء پر عمران خان نے صادق سنجرانی کو امیدوار چیئر مین سینٹ نامزد کر کے اپوزیشن کیلئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اپوزیشن ابھی تک چیئر مین سینٹ کے امیدوار پر متفق بھی نہیں ہو پائی، مسلم لیگ (ن) کی قیادت بضد ہے

کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت میں ان کی جماعت کا کردار ہے۔ اب چیئر مین سینٹ مسلم لیگ (ن) کا ہونا چاہیے جبکہ آصف علی زرداری یوسف رضا گیلانی کو چیئر مین سینٹ دیکھنے کے خواہاں ہیں اور اسی ٹارگٹ کو مد نظر رکھ کر پیپلز پارٹی نے وفاق کی سینٹ نشست پر خوب کھیل کھیلا، اور حکومت کے چودہ ارکان قومی اسمبلی نے ضمیر کا سودا کر کے عوامی مینڈیٹ بیچا اور خفیہ ووٹنگ کے دوران حکومتی اتحاد کے امیدوار حفیظ شیخ کی بجائے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا، کپتان نے شو آف ہینڈ کے ذریعہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا تو ان چودہ بے ضمیر ارکان کا ضمیر جاگ گیااور انہیں ہوش آ گیا کہ وہ تو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے تھے اور انہوں نے اعتماد کا ووٹ بھی کپتان کو دینا ہے۔

سو ان چودہ ارکان نے بھی کپتان کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے ہاتھ کھڑا کیا۔ اس طرح کپتان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے اپوزیشن کو زیرو کر دیا ہے۔ 2018ء کے سینٹ الیکشن میں اسی طرح خیبر پختونخواہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 20 ارکان اسمبلی نے ووٹ فروخت کیا تھا تو کپتان نے سخت ایکشن لیتے ہوئے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار 20 ارکان خیبر پختونخواہ اسمبلی کو پارٹی سے ہی نکال دیا تھا اب کپتان 2021ء کے سینٹ الیکشن میں وفا ق کی نشست پر ووٹ فروخت کرنے والوں کی تلاش میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ کپتان کہتے ہیں کہ پارٹی سے بے وفائی کرنے والے 14 ارکان اسمبلی کا احتساب اور ان سے حساب ہو گا؟ یعنی کہ پتہ چلنے پر 14 ارکان اسمبلی جنہوں نے عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ کپتان نے عبدالحفیظ شیخ کو بطور مشیر کام جاری رکھنے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی ملکی حالات کی تو معیشت تباہی کے دہانے، مہنگائی عروج پر، غربت، بیروزگاری کی وجہ سے اجتماعی خود کشیوں میں اضافہ، بجلی، گیس، آٹا، چینی، دالیں، حتیٰ کہ اشیاء خوردونوش کی ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ جس سے غریب طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ کپتان جی بھوک و افلاس کی ماری عوام کی اکثریت کو سیاست سے کوئی غرض نہیں۔ آپ سیاست ضرور کریں اور مخالفین کو سیاسی پنچ ماریں یا انہیں احتساب اور حساب کے نام سے جیل یاترا کرائیں مگر عوام کیلئے دو وقت کی روٹی سہل بنا دیں، تا کہ غریب اور اس کے بچے رات کو پیٹ بھر کر کھا کر آپ کو دعائیں دے کر سوئیں۔ تو کپتان جی تب بنے گا ملک ریاست مدینہ۔ نہ کہ سیاست سیاست کھیلنے سے، جو قیام پاکستان سے سیاستدان اس ملک کے ساتھ کھیلتے آ رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں