دہشت گردمنظم نہ ہونے پائے !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پا کستان میں سیکورٹی فورس کی کامیاب کاروئیوں کی بدولت دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ،مگر دہشت گردوں کے باقیات قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں، گزشتہ ماہ کے دوران دہشت گردوں نے جس طرح مختلف واقعات میں شب خون مارتے ہوئے سول اور فوجی اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا،اس کے بعد دہشت گردوں کی باقیات کے خلاف آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا، پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والوں کو فوجی و عسکری قیادت کی طرف سے منطقی انجام تک پہنچانے کا حتمی فیصلہ کرکے آپریشن شروع کر دیا گیا،شمالی وزیرستان کے علاقہ بویا اور دوسلی میں آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 8دہشت گرد مارے گئے، جن میں تین کمانڈر بھی شامل تھے،
ُامیدِ واثق ہے کہ یہ آپریشن علاقے میں موجود آخری دہشت گرد کی موجودگی تک جاری رہے گا۔یہ امرواضح ہے کہ سیکورٹی فورسز نے جب بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا ہے ،پاکستان سے راہِ فرار اختیار کرنے والے دہشتگردوںکو بھارت کے ایما پر افغان حکومت پناہ دیتی رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے دہشتگردی کی تربیت بھی دیتے ہیں، یہ قونصل خانے دہشتگردوں کے مراکز بن چکے ہیں۔ مولوی فضل اللہ جیسے دہشتگرد ایک عرصے تک پاکستان کے خلاف سرگرم رہے جو بعدازاں ایک حملے میں ہلاک ہو گیے،مگر اس کے ساتھی بدستور پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔
پاکستان میں دُبکے دہشتگرد کارروائی کریں، یاافغاٖنستان کے راستے دہشت گردی کروائی جائے،پا کستان میں دہشت گردی کے واقعات کی پشت پر بھارت ہی نظر آتا ہے،اگرچہ دہشتگرد پہلے کی طرح بڑے حملے کرنے سے عاجز آ چکے ہیں،مگر کبھی کبھار کی دہشتگردیبھی ناقابل قبول ہے۔ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر دہشتگردی کے بدترین واقعات ہوتے تھے جو افغانستان کے ملحقہ علاقوں تک محدود ہو گئے ہیں،تاہم اس پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے، نہ قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشتگردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ رہا ہے، اس کے ناقابل تردید ثبوت پا کستان نے اقوام متحدہ اورامریکہ سمیت پوری دنیا کے سامنے رکھے ہیں،جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ کشمیر میں پاکستان کے ایما پر آزادی کی تحریک کو مہمیز ملتی ہے،اس کا بدلہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں چکایا جائے گا، یہ پاکستان میں بھارت کے اعلیٰ ترین سطح پر دہشتگردی کرانے کا اعتراف ہے۔ پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے جھوٹے الزامات لگا کر بھارت وہاں اپنی
بربریت اور سفاکیت میںاضافہ کررہا ہے۔ بھارت میں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار اور مقبوضہ کشمیر میں بربریت اور سفاکیت کی انتہا ہوگئی ہے، اس حوالے سے امریکہ جیسی بڑی طاقت کو محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لینا چاہئے،بلکہ بھارت پر دبائو ڈال کے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت کو یقینی بنانا چاہئے،مگر اقوام عالم بھارت کا جبر روکنے کی بجائے خاموش تماشائی بنا سب کچھ دیکھے جارہا ہے ۔
دنیا سے اقوام عالم کی دوغلی پالیسی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے،ایک طرف انسانی حقوق کے علم برداری کے دعوئے تو دوسری جانب کشمیری عوام پر جبری تسلط پر خاموش تماشائی کا کردار سب دیکھ رہے ہیں،اقوام عالم کی بے حسی بھارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے،یہی وجہ ہے کہ بھارت خطے میں دہشت گردی کے ذریعے امن تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، افغانستان میں بھی امن عمل سبوتاژ کرنے کے لئے بھارت اور افغان حکمرانوں کا گٹھ جوڑ بناہے۔
امریکہ کو باور کرانے کے لئے کہ طالبان امن نہیں چاہتے، حملوں کی ڈرامے بازی کی جاتی ہے،بھارت ایسے ڈراموں میں وسیع تجربہ رکھتا ہے، ممبئی حملوں سے قبل سمجھوتہ ایکسپریس میں آتشزدگی اور پھر پٹھان کوٹ اُڑی اور پلوامہ حملے بھارت کی ڈرامہ بازیوں کی مثالیں ہیں،تاہم امریکہ کو بھارت کی ڈارامہ بازیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے مفاد کے پیش نظر امریکی افواج کے انخلاکیلئے خطے میں قیام امن کو یقینی بنانا ہو گا۔
بھارت خطے کا امن تباہ کرنے اور پا کستان قیام امن کیلئے کو شاں ہے ،بھارت دہشت گردی کے ذریعے پا کستان کا امن برباد کرنے کیلئے کوشاںہے،جبکہ ملک سے دہشتگردوں کا مکمل قلع قمع کرنے کے لئے عسکری و سیاسی قیادت اور قوم ایک پیج پر ہے ،تاہم دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے سب سے زیادہ ضرورت دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے کڑے احتساب کی ہے۔ ملک میں دہشت گرد سہولت کاری کے بغیر دہشتگرد ی کی ایک بھی کارروائی نہیں کر سکتے
،گزشتہ ماہ وزیرستان اورملحقہ علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات میں ایسے خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ دہشتگرد اپنی پرانی کمین گاہوں میں منظم ہو رہے ہیں،یہ دہشت گرد کبھی اندرونی اور بیرونی سہولت کاری کے بغیر کبھی منظم نہیں ہو سکتے ،سیکورٹی فورسزکو دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ سہولت کاروں کا بھی سد باب کر نا ہو گا ،دہشت گردوں کوکسی بھی صورت دوبارہ منظم تو کیا، ایک جگہ جمع ہونے سے بھی روکنا ہے،تبھی ملک میں قیام امن دیر پا ہو پائے گا۔