’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 194

’’پنجاب میں پولیس افسران کی ترقیوں سے کھلواڑ‘‘

’’پنجاب میں پولیس افسران کی ترقیوں سے کھلواڑ‘‘

تحریر ،اکرم عامر سرگودھا
آندھی ہو یا طوفان، گرمی ہو یا سردی موسم کیسا بھی ہو، پولیس فورس کے جوان آپ کی خدمت کیلئے ہر چوک چوراہے، گلی محلے، شاہراہ پر کوشاں اور متحرک نظر آتے ہیں، اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے کیونکہ یہ ان کے فرائض میں بھی شامل ہے اور پنجاب پولیس کا نعرہ بھی یہی ہے کہ
’’پولیس کا ہے فرض مدد آپکی‘‘پولیس کا کام کچھ عرصہ قبل تک صرف جرائم کا خاتمہ اور جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوتا تھا پھر ملک کے حالات اس قدر گھمبیر ہوئے کہ اب تمام مکاتب فکر کی عبادتگاہوں، مسجد ہو یا امام بارگاہ، گرجا گھر، مندر ہو یا گردوارہ میں عبادت کرنے والوں سے لے کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے تک کے عمل کی سکیورٹی کیلئے پولیس کے کانسٹیبل سے لے کر افسران تک ڈیوٹیاں دیتے نظر آتے ہیں اور آئے روز فرائض کی بجا آوری کے دوران پولیس کے کانسٹیبل سے لے کر افسران تک کی شہادتوں کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی طرح پولیس بھی اپنے فرائض سے کسی طرح غافل نہیں ہے

اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے میں پولیس فورس کا اہم کردار ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انتہائی محدود وسائل اور سہولتوں کے فقدان کے باوجود پولیس فورس نا صرف قانون شکن عناصر سے بخوبی نمٹ رہی ہے بلکہ ملک میں امن و امان کے قیام میں بھی مثالی کردار ادا کر رہی ہے، یہ بات درست ہے کہ اس محکمہ میں بھی آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ موجود ہونگے جو اپنے فرائض میں غفلت کے مرتکب یا حرص زر میں مبتلاء ہونگے،

ایسے لوگ ہر سرکاری و غیر سرکاری ادارے میں موجود ہوتے ہیں، ان میں ایسے اہلکار بھی ہیں جو اپنے افسران کے احکامات کو بھی کچھ نہیں سمجھتے، جس کی ایک چھوٹی سی مثال کچھ یوں دے رہا ہوں کہ ان میں لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی میں 10 سال سے ڈیپوٹیشن پر گئے ہوئے پنجاب پولیس کے انسپکٹر وحید الدین ہیں جن کا اعلیٰ حکام نے کئی بار تبادلہ کیا لیکن وہ افسران سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے اور ہر بار اپنا تبادلہ منسوخ کروا لیا، موصوف کے اثاثوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ اس کی تنخواہ سے کئی سو گنا زیادہ ہیں، اسی طرح کی سینکڑوں مثالیں پنجاب پولیس اور دیگر محکموں میں موجود ہیں، سو راقم کو اس سے کوئی غرض نہیں ان کی چھان بین کرنا تو نیب اور اداروں کا کام ہے۔
ہماری قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بھی پولیس کو بناتے ہیں، حالانکہ اعداد و شمار کے مطابق کرپشن میں پہلے نمبر پر محکمہ ریونیو، دوسرے پر محکمہ انہار، تیسرے پر زراعت، چوتھے پر لائیو سٹاک اور پھر پانچویں پر پولیس کا نمبر آتا ہے، لیکن ستم طریفی یہ ہے کہ جہاں عوام کی اکثریت اس محکمہ پر بے جا تنقید کر کے ان سے زیادتی کی مرتکب ہوتی ہے، وہاں حکومت بالخصوص پولیس کے بنائے گئے آرڈیننس بھی پولیس افسران اور اہلکاروں کی حق تلفی کا باعث بن رہے ہیں، جس کا مختصراً خلاصہ کچھ یوں بیان کروں گا کہ پولیس سروس رولز 2008ء کے مطابق سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پیز) کی پروموشن کیلئے 60 فیصد صوبائی سروس کے ڈی ایس پیز کا کوٹہ تھا اور 40 فیصد اے ایس پیز کا،

اسی تناسب سے ان کی ترقیاں ہوتی تھیں، اب پولیس ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب نے جنوری 2021ء میں نوٹیفکیشن کے ذریعے پولیس سروس رولز 2008ء کو ختم کر کے نئے پولیس سروس رولز 2020 بنائے ہیں، جس کے سیکشن 6 کے سب سیکشن 2 میں کہا گیا ہے کہ اب سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پیز) کی پروموشن کے لئے 40 فیصد صوبائی سروس کے ڈی ایس پیز کا کوٹہ ہو گا اور 60 فیصد کوٹہ اے ایس پیز کا ہو گا جو ڈائریکٹ اے ایس پی بھرتی ہوتے ہیں، یعنی صوبائی سروس کے ملازمین کا 20 فیصد کوٹہ کم کر دیا گیا ہے، صوبہ میں امن و امان، شہریوں کے

جان و مال کے تحفظ سے لے کر وی وی آئی پیز کی سکیورٹی تک سب کام صوبائی سروس کے ملازمین و افسران کی سروس میں شامل ہے تو توجہ طلب امر یہ ہے کہ 60 فیصد کے کوٹہ کے حساب سے ڈی ایس پی بطور ایس پی پروموٹ ہوتے ہیں تو اس سے نیچے سپاہی کیڈر تک کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ اپنی سنیارٹی کے مطابق میرٹ پر Next step پر پہنچ جاتے ہیں، اس طرح ان کی دلجوئی ہوتی ہے اور پولیس اہلکار دل لگا کر اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں، مزید برآں پولیس آرڈر 2002ء ترمیم شدہ 2013 کی دفعہ 165 میں پولیس کی ترقیوں کے لئے بورڈ/کمپنیوں کا ذکر موجود ہے، مگر اس میں بھی ایس پی سے اوپر ترقی کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس طرح عمومی طور پر صوبائی پولیس کا آفیسر ایس پی سے اوپر ترقی نہیں کر سکتا،

جبکہ پنجاب کے دیگر ہر محکمہ جات ماسوائے پولیس کے میں گریڈ 21 تک ترقی کا طریقہ کار موجود ہے، اس طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ان فیصلوں سے صوبائی سروس کے پولیس کانسٹیبل سے لے کر ایس پی تک کے افسران کی حق تلفی ہوئی ہے اور پنجاب میں سپاہی سے لے کر ایس پی تک سب بے دلی اور بے چینی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، اس طرح 2020ء میں نئے بننے والے قانون کے مطابق ان کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے،

ستم ظریفی اور یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ڈیوٹیاں تو صوبائی سروس کے پولیس اہلکار دیں، جانوں کے نذرانے پیش کریں اور ان کے حصہ کی پروموشن ڈائریکٹ بھرتی ہونے والے اے ایس پیز کو دے دی گئی، اس سے بڑا ظلم، نا انصافی اور عدم مساوات کی مثال ملک میں نہیں ملتی، یہ معاملہ پنجاب اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا لیکن ابھی تک پنجاب بھر کے پنجاب سروس کے کانسٹیبل سے ایس پی تک کی حق رسی کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا سکا۔ جس کی وجہ سے پنجاب سروس کے کانسٹیبل سے لے کر ایس پی تک کے ملازمین گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔
کپتان جی آپ تو میرٹ، ملک سے کرپشن اور اقربائ￿ پروری کے نظام کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے، پنجاب پولیس کے ڈیپوٹیشن پر لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی میں گئے ہوئے انسپکٹر وحید الدین کے معاملہ کو بلا شک پس پشت ڈال دیں، اور مزید دس سال رہنے دیں موصوف کو ڈیپورٹیشن پر،تاکہ وہ اپنی اور قوم کی خدمت کرتے رہیں لیکن کپتان جی آپ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں، پنجاب بھی آپ کی سلطنت میں شامل ہے،

اور اس صوبہ میں وزیر اعلیٰ عثمان بزردار بھی آپ کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کپتان جی ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ان (وزیر اعلیٰ پنجاب) کو حکم صادر کریں کہ پولیس افسران کی ترقیوں کے حوالے سے جاری کردہ آرڈیننس 2020ئ￿ پر نظر ثانی کر کے سابقہ حیثیت بحال کریں، تا کہ پنجاب میں صوبائی سروس کے پولیس اہلکاروں سے ایس پی سطح کے افسران میں پائی جانے والی اضطرابی کیفیت ختم ہو اور وہ دبائو سے نکل کر دلجمعی سے جرائم پیشہ عناصر سے نمٹ کر اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں