نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 261

کورونا کی لہر کے ساتھ کیسے جینا ہے !

کورونا کی لہر کے ساتھ کیسے جینا ہے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
کورونا وائرس نے نوع انسانی کو بے رحمی سے جکڑ رکھا ہے، گزشتہ سال مارچ سے عوام کورونا کی اذیت و آزمائش، معاشی مشکلات اور بے یقینی کے خدشات سے گزر رہے ہیں،کورونا نے جہاںسماجی شکست وریخت کے تمام ریکارڈ توڑ ے ،وہیں تعلیم وصحت کے انفرا سٹرکچر کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے ، باقی رہی عوامی استقامت تو اسے بھی اب بھوک،بے روزگاری اور مہنگائی نے تیسری لہرکے خطرہ سے دوچار ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ملک میں کورونا وائرس کی لہر میں کمی آنے کے بعد کیسز کی تعداد میں اچانک اضافہ متقاضی ہے کہ ان تمام احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد پوری تندہی سے کیا جائے کہ جن کی جانب طبی ماہرین اور حکومتی ادارے بار بار توجہ مبذول کراتے رہے ہیں، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے وائرس کے پھیلائو میں اضافے اور ہیلتھ سسٹم پر دبائو بڑھ جانے کے باعث ایک بار پھر پابندیاں سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے

،جس کے تحت رات دس بجے تک کاروبار جاری رکھنے سمیت لاک ڈائون میں دی گئی بعض سہولتیں واپس لے لی گئی ہیں،حکومت کی جانب سے سات شہروں میں تعلیمی اداروں میں بھی دو ہفتے کے لیے چھٹیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے سے کورونا سے بچائوکی حکمت عملی زیادہ تر تعلیمی اداروں کی بندش تک محدود دکھائی دیتی ہے۔ طالب علموں کی صحت انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،

مگر یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ صرف تعلیمی سرگرمیوں کی بندش سے کورونا وبا کے خطرے کو کم کرنے میں کہاں تک مدد مل سکتی ہے ،جہاں تک سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا تعلق ہے تو یہاں کورونا وبا سے بچائوکی تدابیر پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے، شاید ہی کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں، جہاں بغیر ماسک کے یا درجہ حرارت چیک کئے بغیر اندر جانے کی اجازت ہے،تعلیمی اداروں میں سماجی فاصلے کا زیادہ اہتمام بھی کیا جاتا ہے ،اس لیے یہ مان لینا کہ صرف تعلیمی ادارے کورونا وبا کے پھیلائوکا بنیادی ذریعہ ہیں،قدرے غیر منطقی ہے۔
حقیقت میں کورونا وبا کے

پھیلائوکا سازگار ماحول تعلیمی اداروں کے باہر زیادہ پایا جاتا ہے اور حکومت اس جانب بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود احتیاطی تدابیر پر مؤثر طریقے سے عمل در آمد نہیں کراسکی ہے،اس تناظر میں جو صورت حال بازاروں‘ مارکیٹوں اور تجارتی مقامات پر نظر آتی ہے، اس میں کورونا کے پھیلائوکے انتہائی امکانات کسی شبہے سے بالا تر ہیں ،مگر اسے بہتر کرنے کی بجائے حکومت کی جانب سے فروری میں پابندیوں میں مزید نرمی کر دی گئی اور دو ہفتے بعد ہی نتیجہ سامنے آ گیا کہ پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ قبل از وقت تھا، اس غلط فیصلے کے بعد ہم بندشوں کے انہیں راستوں پر چل پڑے ہیںکہ جن پر پہلے چلتے رہے ہیں۔
کورونا کے یومیہ بڑھتے کیسز ظاہر کر رہے ہیں کہ کورونا وبا میںبے احتیاطی میں اضافہ ہوا ہے ، اگر سخت احتیاط کی پالیسی اختیار نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں کورونا کیسز کی تعداد یومیہ دو ہزار سے بڑھنے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اس کورونا کے پھیلائوکو روکنے میں تعلیمی اداروں کی چھٹیاںکوئی اہم کردار ادا نہیںکر سکتیں، کورونا وبا کا پھیلائوکم کرنے کے لیے وہی آزمودہ پالیسی اختیار کرنا پڑے گی

جو اس سے پہلے بھی اپنی افادیت ثابت کر چکی ہے‘ یعنی بازاروں میں ماسک کے استعمال پر سختی سے عمل‘ ہاتھ صاف رکھنے کی پُر زور تلقین‘ سماجی فاصلے کی پالیسی پر اور عوامی اکٹھ والی سرگرمیوں پر سختی سے پابندی لگانے کی ضرورت ہے ، اگر کورونا ایس اوپیز پر عمل نہیں کیا جاتا تو صرف تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی لگانے سے کورونا وبا کا خطرہ ختم نہیں ہو گا۔کورونا کی لہر میں کمی پر پا بندیوں کا خاتمہ اور کورونا لہر کی شدت میں اضافے پرپا بندیاں بڑھانے سے وبا کا مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا ،ہمارے فیصلہ سازوں کو مسئلے کو جڑ سے پکڑنا ہو گا اور انتظامیہ کو فعال بنانا ہو گا ،یہ انتظامیہ کی بہت بڑی
کوتاہی ہے کہ کورونا کی احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کروانے میں ناکام نظر آتی ہے ،اس کے ساتھ جب تک سماجی سطح پر احتیاطی تدابیر پر عمل عوام کی فطرتِ ثانیہ نہیں بنتی کورونا جیسی مہلک وباسے مکمل تحفظ ممکن نہیں ہے، اصولی طور پر احتیاطی تدابیر پر عمل کی پالیسی اس وقت تک نرم نہیں کرنی چاہئیںکہ جب تک آبادی کا ایک بڑا حصہ کورونا وبا کے حفاظتی ٹیکوں سے مستفید نہ ہو جائے، مگر ہمارے ہاں ویکسی نیشن کی کیا صورت ہو گی، اس کا ابھی کسی کو کچھ پتا نہیں، جبکہ احتیاطی تدابیر ہم ترک کر بیٹھے ہیں۔ ہم کورونا وبا کو ایک سال سے بھگت رہے ہیں، ہمیں اب تک اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس کورونا کی تیسری لہر کے خطرے کے ساتھ کیسے جینا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں