نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 240

رمضان سے قبل بے قابو مہنگائی !

رمضان سے قبل بے قابو مہنگائی !

کالم ؛صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
پی ڈی ایم چیئر مین سینٹ الیکشن ہار نے کے بعد لانگ مارچ کی کال دے رہی ہے ،جبکہ عوام کو لانگ مارچ سے زیادہ بڑھتی مہنگائی کی فکر لا حق ہے،رمضان المبارک سے قبل ہی مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہو گیا ہے،ملک کے تمام بڑے شہروں میں مہنگائی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے باوجود مصنوعی مہنگائی عروج پر ہے۔اس صورت حال میںسول سوسائٹی اور شہریوں کا شدید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہنا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو رمضان المبارک کے دوران مہنگائی عروج پر پہنچ جائیگی ،ایک سروے کے مطابق گزشتہ ہفتے پرچون سطح پر 9 سبزیوں کی قیمت میں 25روپے تک، 8پھلوں کی قیمت 10 روپے تک اور ایک درجن فارمی انڈوں کی قیمت میں 9 روپے اضافہ ہوا ہے، جبکہ ایک کلو چینی کی قیمت 100 روپے اور 16 کلو درجہ اول گھی کے کنستر کی قیمت 4320 روپے ہو گئی ہے، رمضان آنے سے کچھ روز قبل اشیائے خوردو نوش میں اضافے کے رجحان سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ رمضان میںروز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں مذید بے پناہ اضافہ ہو گا۔
تحریک انصاف نے عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلانے کی امید دلائی تھی، مگر حکومت اڈھائی سال بعد بھی اپنے وعدوں پر پورا نہیںاُتر سکی ہے۔ حکومت کی طرف سے مہنگائی کے تھپیڑوں کا اعتراف کرتے ہوئے کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں،اس کی ایک وجہ معیشت کی زبوں حالی ہے ،اس کے ذمہ دار سابق حکمران اور گزشتہ حکومتیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے معیشت کی بحالی کی ہرممکن کوشش کی گئی،

معیشت بحال ہورہی تھی کہ کرونا کی تباہ کاریوں سے ایک بار پھر متاثر ہونے لگی، تاہم حکومت کی بہتر پالیسیوں سے معیشت کرونا کے نقصانات سے زیادہ دوچار ہونے سے محفوظ رہی ہے، آج حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت کافی مضبوط ہوچکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اور تارکین وطن کی ترسیلات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں گندم، چاول ، گنا کی پیداوار وافر رہی ہے،تو پھرمنطقی طور پر ملک میںمہنگائی میں کمی ودیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء سستی ہونی چاہئیں،لیکن عوام مہنگائی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں تو معاملہ گڑ بڑ کہاں پر ہے؟ اس پر احکام بالا کو سوچنے اور ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے موقع پر مہنگائی میں کمی لانے کیلئے ہرممکن اقدام کا یقین ظاہر کیا تھا، وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز بھی کہتے ہیںکہ وزیراعظم نے مہنگائی کیخلاف اعلان جہاد کیا ہے ،لیکن ابھی تک مہنگائی کے خلاف اعلان جہاد کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، بلکہ منافع خوروں کی طرف سے چینی اور گھی سمیت بنیادی ضروریات زندگی کے نرخ بڑھا ئے جا رہے ہیں، ان حالات میں ہنگامی اقدامات اور بے رحمانہ احتساب کے ساتھ غیر فعال پرائس کنٹرول کمیٹیاں متحرک کرنے کی ضرورت ہے،یہ کمیٹیاں اچانک کبھی کبھار بیدار ہونے کے علاوہ رمضان المبارک کے قریب فعال ہوتی ہیں، ا رمضان کے ابتدائی چند روز تک ان کی جانب سے دکھائوئے کیلئے چھاپوں کی کارروائیوں کی اطلاعات بھی ملتی ہیں ،پھر آہستہ آہستہ معاملات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ رمضان المبارک میں بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت کی چیکنگ محض دکھاوے اور عوامی تسلی کیلئے کی جاتی ہے۔حیرت انگیز طور پر پرائس کنٹرول کمیٹی کے چھاپے سے قبل ہی غیب سے دکانداروں اور ریڑھی والوں کو چھاپے کی اطلاع ہوجاتی ہے اور وہ مجسٹریٹ کے آنے سے قبل ہی اشیاء سرکاری قیمتوں پر فروخت کرنے لگتے ہیں اور جیسے ہی مجسٹریٹ اپنی ٹیم کے ہمراہ موقع سے رخصت ہوتے ہیں، دوبارہ من مانی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت شروع ہوجاتی ہے۔اس سال بھی اسی سلسلے کے جاری رہنے کی توقع ہے اور یہ قوی اُمید بھی ہے

کہ انتظامیہ کی تمام تر دعوے داریوں کے باوجود عوام کو مہنگائی کا بوجھ پہلے سے بھی زیادہ برداشت کرنا ہی پڑے گا۔اگر عوام کو حقیقی ریلیف دینا واقعی مقصود ہے تو پھر ایسا مستقل اور انتہائی موثر نظام بنانا چاہئے کہ جس سے کوئی بھی قیمتوں کے تعین میں من مانی نہ کرسکے ،عام دنوں کے علاوہ بلخصوص رمضان المبارک کے متبرک مہینے میں مہنگائی کے طوفان سے عوام کو بچانا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اس سلسلے میں مضبوط اقدامات کئے جانے انتہائی ضروری ہیں،اس ضمن میں قائم پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں جہاں میرٹ پر ذمہ دار افراد کی تعیناتی ضروری ہے جو منافع خوروں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، وہیںحکومت کی جانب سے دی

جانے والی لاکھوں روپے کی رمضان سبسڈی کا چیک اینڈ بیلنس بھی کیا جانا چاہئے،روز مرہ استعمال ہونے والی اشیائپر ٹیکس کی چھوٹ ہونی چاہیے، اگر حکومت واقعی مہنگائی پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے ذخیرہ اندوزوں پر سخت لگام ڈالنی ہوگی ۔حکومت ایک طرف مہنگائی میں کمی کے اعلانات کرتی ہے تو دوسری طرف بجلی ،پٹرولیم کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں،اس سے کرایوں سمیت ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔حکومت کی جانب سے سمری کے باوجودپٹرولیم کی قیمت لگاتار دو مرتبہ برقرار رکھی گئی ،جسے عام آدمی کی طرف سے سراہا گیا، جبکہ بجلی کی قیمت فیول ایڈجسٹ کے نام سے بڑھتی رہتی ہے۔

حکومت کو جہاں قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے انتظامیہ کو فعال بنانا ہو گا ،وہیں بجلی اور پٹرولیم کی قیمت میںکسی بھی طرح ٹھہرائو لانا ہوگا،تبھی آئے روز بڑھتی مہنگائی کسی حد تک رُک پائے گی، عوام کا آج سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور زندگی کی دیگر مشکلات ہیں، جس کی جانب چودھری شجاعت حسین نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ہار جیت پر بھنگڑے ڈال رہی ہے اور عوام بھوک اور مہنگائی کی بگڑی ہوئی حالت پر آہ و پکار کر رہے ہیں،ملک کی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ووٹ اور نوٹ کی عزت کا پرچار کرنے کی بجائے عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں، اگرمہنگائی اور بیروزگاری کو فوری کنٹرول نہ کیا گیا تو کسی کو ہار جیت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا،بلکہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں