مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے ! 167

سیاسی نامزدگی کی بھاگ دوڑ !

سیاسی نامزدگی کی بھاگ دوڑ !

تحریر:شاہد ندیم احمد
سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کے لیڈر آف اپوزیشن کا اعزاز حاصل کر نے کے بعد مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی میں ٹھن گئی ہے ،مسلم لیگ (ن )کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر پیپلز پارٹی سے جوانڈرسٹینڈنگ ہوئی تھی، اس کے مطابق چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پیپلزپارٹی کے پاس، جبکہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن)کا ہوگا، تاہم یوسف رضا گیلانی کی چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں شکست کے بعد سیاسی منظر نامہ ہی بدل گیا اور دونوں جماعتیں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئی ہیں،مولانا فضل الرحمٰن کی مداخلت کے بعد کسی حد تک سیز فائر ہوا تھا،لیکن یہ عارضی ثابت ہوا، اب کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے، بصورت دیگرمسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان دما دم مست قلندر ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ( ن) محازذآرائی کی پالیسی کے باعث سینیٹ کی معرکہ آرائی میں جیتی ہوئی بازی بھی ہار گئے ہیں، اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے بڑے شاطرانہ انداز سے اپنے مہرے کھیلے ہیں، انہوںنے اپنی کمزوریوں کو اپنے مضبوط پوائنٹس بنا کر سیاست میں کامیابی حاصل کی ہے۔اس کے برعکس میاں نواز شریف کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے برادر خورد میاں شہباز شریف کو نہ صرف کوٹ لکھپت جیل میں کھڈے لائن لگا رکھا ہے،بلکہ حمزہ شہباز جو پنجاب میں مریم نواز سے زیادہ موثر ہیں،کو بھی سائیڈ لائن کر رکھا ہے۔

سیاست میں مریم نواز کیلئے میدان کھلا چھوڑا گیا ہے ،اس کے نتائج تصادم کی شکل می سامنے آرہے ہیں،مریم نواز کا انگور کھٹے ہیں کہ مصداق موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ صف بندی ہوچکی اور واضح لکیر کھنچ گئی ہے، ایک طرف وہ لوگ کھڑ ے ہیں کہ جو قربانیاں دے کر عوام اور آئین کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے چھوٹے سے فائدے کے لئے جمہوری روایات کو روند ڈالا، عوام پہچا ن گئے ہیں کہ کس کا کیابیانیہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جس طرح ایک دوسرے کی درپردہ چال بازیوں کا راز فاش کرنا شروع کیا ہے، اس کے بعد یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ اگر سیاسی لیڈروں کو ایک دوسرے کی نیت کے بارے میں اتنے شبہات ہیں اور ان کا کردار دھوکہ، سودے بازی اور مراعات کے لئے قلابازی تک ہی محدود ہے

تو پھر ملک کے عوام کو مستقبل میں ان سے کیا امید رکھنی چاہئے؟ اس ملک نے ان دونوں پارٹیوں کے درمیان نوے کی دہائی میں ہونے والی محاذ آرائی بھگتی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلط کی گئی آمرانہ حکومت کا سامنا بھی کیا ہے، اس تلخ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں پارٹیوں کی قیادت نے میثاق جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ پر دستخط بھی کئے تھے، تاکہ مستقبل کی سیاست کو ماضی کی آلائشوں سے آلودہ نہ کیا جائے،لیکن ایک بار پھر پرانی روش پر چلتے ہوئے جمہوریت کو آمریت کی دلدل میں دھکیلنے کی کاوشیں جاری ہیں۔
سیاسی منظر نامہ پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے درمیان قائم ہونے والی ورکنگ ریلیشن شپ سے اُمید ضرور پیدا ہوئی تھی کہ نئی سیاسی قیادت سیاسی اختلاف رائے ہونے کے باوجود وسیع تر قومی ایجنڈے کو ترجیح دے گی، بلاول بھٹو زرداری اسے عمران خان کی’نامزدگی‘ کے خلاف جد و جہد کہتے رہے ہیں اور مریم نواز ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ماٹو پر ملکی نظام اور سیاست استوار کرنے کی دعویدار رہی ہیں، تاہم سینیٹ انتخابات کے بعد پہلے لانگ مارچ و استعفوں کی حکمت عملی اور پھر سینیٹ انتخاب میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے پر دونوں پارٹیوں نے جس طرح اپنے گندے کپڑے چوک میں دھونے کا طریقہ اختیار کیا ہے، اس سے نوجوان سیاسی قیادت سے وابستہ عوام کی امیدوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔
یہ طرز سیاست ملک میں جمہوری احیا کے لئے پیدا ہونے والی معمولی سی امید کو ختم کرنے کا سبب بن رہا ہے،سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور انہی کی وجہ سے جماعتیں ٹوٹ بھی جاتی ہیں، اِس وقت کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں کہ جو اپنے اندرونی سیاسی اختلافات کی وجہ سے کبھی نہ کبھی اس صدمے سے دوچار نہیں ہو ئی ،اِس لئے اگر ایک ہی جماعت کے رہنما اپنے بدلتے خیالات کی وجہ سے کسی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں

تو سیاسی اتحاد تو بنتے ہی محدود وقت اور محدود مقاصد کے لئے ہیں۔پی ڈی ایم بھی ایسا ہی غیر فطری سیاسی اتحاد ہے جو بنا تو حکومت گرانے کے لئے تھا،لیکن سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کے منصب نے اسے وقت سے پہلے ہی اس حال کو پہنچا دیاہے کہ اس کی دو بڑی جماعتیں آئندہ اکٹھے چلتی نظر نہیں آرہی ہیں، اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنی راہیں کل جدا کرنی ہے تو آج ہی کر لیں، بالغ نظری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی بجائے خوش اسلوبی سے نئے فیصلے بھی کر سکتی ہیں۔
اس وقت پی ڈی ایم اپنا وجود برقرار رکھنے اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اپنے مفادات کے حصول کی تگودو میں مصروف ہیں،جبکہ ملک کو کثرت آبادی، ماحولیاتی آلودگی، پانی کی قلت، معاشی وسائل کی کمیابی، علاقائی کشیدگی، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مہیب مسائل کا سامنا ہے۔پی ڈی ایم قیادت ملک وعوام کے مسائل سے بے غرض ہے ،ان کے سروں پر صرف عمران خان کو گھر بھیجنے کا بھوت سوار ہے ، اپوزیشن کے کسی لیڈر نے

عوام کبھی نہیں بتایا کہ عمران خان کو ہٹا کر ملکی مسائل کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے ،جبکہ یہ اقتدار کے تین بار مزے لوٹ چکے ہیں۔یہ واضح رہے کہ جمہوری تصور اسی وقت ہی پنپ سکے گا کہ جب جمہور کو تحفظ اور شراکت اختیار کا احساس دیا جائے گا،پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ بتاتی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ابھی تک اس اصول کو سمجھنے سے قاصر ہے، اسی لئے سیاسی نامزدگیوں کا سلسلہ جاری اور اس کے لئے بھاگ دوڑ ہورہی ہے،تاہم نامزد قیادت ملک وعوام کی ترقی وخوشحالی کی ضامن بن سکے گی، نہ سیاست میں کبھی کا میاب ہو سکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں