انجام بھی رسوائی، آغاز بھی رسوائی 167

کامیابی کا مفہوم

کامیابی کا مفہوم

جمہورکی آواز ایم سرورصدیقی
درویش آج معمول سے زیادہ سنجیدہ تھے اس لئے دور دراز سے آئے ہوئے حاضرین کو سوال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہورہی تھی حالانکہ وہ بڑے شفیق ،وضع داراور محبت کرنے والی شخصیت تھے جن کے آستانے پر خدام د ن رات آنے والے مہمانوںکی خاطر مدارت کرتے رہتے تھے وہ خود صاحب ِ نصاب تھے کئی مرتبہ وہ چپکے سے ضرورت مندوںکی مددبھی کردیا کرتے تھے ۔ ایک نوجوان نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ جناب کامیابی کی Definition کیا ہے؟ درویش مسکرائے اپنے چاروں جانب نظر دوڑائی اور بڑی متانت سے جواب دیا کامیابی کی تعریف ہر شخص کے لئے الگ الگ ہوسکتی ہے ہو سکتاہے جسے ایک شخص کامیابی سمجھ رہاہو دوسرے کے نزدیک کامیابی کا مفہوم کوئی اور ہو یا وقت گذرے تو احساس ہوکہ یہ کامیابی نہیں تھی

بلکہ کسی گھنجلک مسئلے کی بنیاد تھی۔ آپ درا غورکریں آج بے پناہ ترقی اور بے بہا ایجادات ،چاند کی تسخیر یا سمندرکی تہہ تک رسائی کے باوجود ابھی تک کائنات کے کماحقہ‘ ا سرار رموز انسان پر آشکارنہیں ہوسکے اب اسے آپ کامیابی قراردیں گے یا ناکامی ۔ سوال کرنے والا نوجوان یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا اسے تذبذب کا شکار دیکھ کر درویش نے کہاآج ایک سچا واقعہ سن لو شاید ہمارے دل میں معرفت کے نئے شگوفے کھل اٹھیں پھر بتانا آپ کے نزدیک کامیابی کی Definition کیا ہے؟ ۔درویش نے دو ر خلاء میں گھورتے ہوئے سرہلایا پھر آنکھیں بند کرکے گویا ہوئے میرے روحانی مرشد کی محفل جمی ہوئی تھی انہوںنے اپنے سینکڑوں مریدوں پہ نظر ڈالی اس اثناء میں ایک شخص نے سلام مسنوں کرتے ہوئے

حضرت صاحب کے سامنے ایک لال سرخ فربہ انار لاکررکھ دیا مرشد نے انار دیکھا تو مسکرائے اور دھیمے لہجے میں کہا بڑے دنوں سے انارنہیں دیکھا تھا لانے والے کا شکریہ پھر انہوں نے کاٹنے کا اشارہ کیا اور اپنا انار کھاتے کھاتے ایک ہونہار مْرید کی طرف بڑھا دیا! مرید ِ باصفا نے انار ادب سے پکڑا مگر وہ چاہتا تھا کہ مرشد ہی انار سے مستفید ہوں کیونکہ وہ بہت کم ہی کوئی چیز رغبت سے کھاتے تھے نہ جانے کب سے انہوںنے انارکا ذائقہ نہ چکھا ہو یہ سوچتے ہوئے اس نے دوبارہ وہ انار اپنے مرشد کی طرف بڑھایا اور کہا! حضور آپ ہی شوق سے تناول فرمائیے ہم تو روز کچھ نہ کچھ کھاتے ہی رہتے ہیں ۔مرشدنے اس کی آوازسن کر کچھ سوچاپھر وہ انار اس مرید سے لے کر دوسرے مرید کی طرف بڑھا دیا

جو بڑی حسرت اور رشک کے ساتھ اس انار کی جانب دیکھ رہا تھا جیسے اس نے سالوں سے انار نہ کھایا ہو ، انار پکڑاتے ہوئے مرشد نے بڑی دھیمی آواز میں کہا! دانے دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتاہے تم کیا جانو۔دوسرا مرید مزے مزے سے انار کھارہاتھا کہ ایک دانا نیچے گر گیا جسے اس نے نظراندازکردیا پہلے مْرید نے رزق کی بے ادبی سمجھ کر اس دانے کو نیچے سے اٹھایا اور کھا لیا انار کاایک دانہ جونہی اس کے حلق سے نیچے اترا اس مرید کے چودہ طبق روشن ہو گئے زمین اور آسمان کے حقائق کی گتھیاں کھلناشروع ہو گئیں اور کئی اسرار ورموز اس پر آشکارہوتے چلے گئے

اس نے گھبرا کر اسے دیکھا جس کے حصے میںسارا انار کھا نے کی سعادت آئی تھی اس نے بڑ ی حسرت سے سوچا! ایک دانے نے میر ی یہ حالت کردی ہے، جس نے سارا انار کھا لیا ہے اس کا کیا حال ہوا ہو گا ؟ مْرشد جو یہ ساری صورتحال دیکھ رہا تھا مسکراتے ہوئے بولا ! بیٹا! جو کچھ تھا اسی دانے میں تھا جو تو نے کھا لیا باقی انار بس ویسا انار ہی تھا! جو سب کھاتے ہیںلیکن یہ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے مرشد نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا! دیکھو! اگر وہ اس دانے کو حقیر نہ جانتا اور اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر تیری طرح لپک لیتا تو اپنی مْراد کو پا لیتا یہی

اس کی کامیابی تھی یادرکھو انسانوں کی بہت سی قسمیں ہیں ایک دوسرے سے جدا ،مختلف ،کئی ایک دوسرے کی ضد ۔ جس طرح فصلوں کی اپنی قسمیں ہوتی ہیں کسی کو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے جبکہ وہی پانی دوسری فصل کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے__ کسی کے دل و دماغ کی گتھی سلجھانے کو ایک جملہ بھی کافی ہوتا ہے کسی کے لئے ایک جملہ ہی اس کی کایا پلٹ دیتاہے جبکہ دوسرے کے لئے ایک گھنٹے کا خطاب بھی بیکار ،بے سود ،بے اثرہوتا ہے کسی کے لئے زمین پر کھڑے اونٹ پر ایک نظر ڈالنا ہی اسے رب سے ملا دیتا ہے اور کوئی شٹل میں خلا ؤں میں گھوم پھر کے آ جاتا ہے

مگر جیسا خالی جاتا ہے ویسا ہی خالی آ جاتا ہے، کسی بات کو کسی چیز کو حقیر مت جانو ہو سکتا ہے جسے توں معمولی سمجھ کے حقیر جان لیا اور دیکھنا گوارا نہیں کرتاوہی تیر ے لئے کامیا بی کی سیڑھی ہو وہی تیری ہدایت کا سامان ہو لوگویاد رکھو بڑے سے بڑے تالے کی چابی چھوٹی ہی ہوتی ہے ! اس کے حجم کو مت دیکھو کام پر نظر رکھو آج جان لو کہ انارکا وہ دانہ کھانے والے کون تھے ؟ جانتے ہو ۔۔۔نہیں جانتے تو پھرجان لو وہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کو دنیاجانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے ان کی تعلیمات پرعمل کرنے سے کیا ملے گا اللہ والے ہیں وہ اللہ سے ملا دیتے ہیں کے مصداق ہے اب ذرا غورکرو کامیابی کی Definition کیا ہے؟ جسے ہم سب اپنی کامیابی سمجھتے ہیں

یہ اللہ کی رحمت سے ہی ممکن ہے انسان کی یہ اوقات نہیں جس پر وہ اتراتاپھرے۔ درویش نے کہا دودھ دینے والا کوئی جانور لے لو اس کی ذبح کرکے بوٹی بوٹی کرڈالو تم کہیں سے بھی اندازہ نہیں لگاسکتے یہ دودھ کہاں سے آرہاہے؟ یہ نہیں کرسکتے تو چلو کسی بھی پھلدار درخت کو ہی لے لیجئے اس کے نیچے ساری زمین کھود ڈالیں یا اس درخت کی ہرشاخ جداکردیں کہیں سے بھی پھل برآمد نہیں ہوگا یہ انسان کا کما ل نہیں اس کی کامیابی فقط اللہ کی رحمت میں ہی پوشیدہ ہے لیکن انسان غورہی نہیں کرتا اسی لئے کہاگیاہے کہ انسان خسارے میں ہے اس لئے کامیابی کے لئے بھرپور محنت کریں اور نتائج اللہ کی ذات پرچھوڑ دیں وہ کسی کی محنت کو رائیگاںنہیں جانے دیتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں