کرونا مہنگائ اور سینیٹائزرز 162

کرونا مہنگائ اور سینیٹائزرز

کرونا مہنگائ اور سینیٹائزرز

تحریر۔حمادرضا
کچھ زیادہ نہیں یہ چند سال پہلے ہی کی بات ہے جب مجھے تعلیم کے سلسلے میں اکثر و بیشتر لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا پڑتا تھا یہ سفر لیہ سے ڈیرہ غازی خان تک محیط ہوتا تھا جو لگ بھگ ایک سو پچاس کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے چونکہ اس روٹ پر دن کے اوقات میں بڑی بسیں براۓ نام ہی چلا کرتی تھیں اس لیے مجبوراً ڈربہ نما ویگنوں میں بیٹھ کر یہ پل صراط عبور کرنا پڑتا تھا اس قسم کی ویگنوں میں بیٹھ کر نجات کی دو ہی صورتیں باقی رہ جاتی تھیں یا تو آپ کو موت کا فرشتہ آن گھیرے یا آپ جلد از جلد اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائیں ان ویگنوں میں نسوار خوروں کی بہتات ہوا کرتی تھی

جو الگ سے ایک سر درد تھی اچانک آپ کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا آدمی اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان خلاء بنا کر پوری قوت سے پچکاری دے مارتا تھا جو کسی لیزر بیم کی شعاع کی طرح ٹھیک نشانے پر جا لگتی تھی اب ذرا توقف سے وہ ہی شخص اپنی شہادت والی انگلی کو کنڈی کی طرح موڑتا اور منہ سے زور دار جھٹکے سے نسوار کی گولی باہر اچھال مارتا اب یہیں سے کھیل تیسرے اور دلچسپ مرحلے میں داخل ہو جاتا تھا اب وہ شخص چور نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھتا اور اطمینان سے ہاتھ اگلی یا ساتھ والی سیٹ کے ساتھ صاف کر دیتا میرے لیے یہ ایک سوہانِ روح منظر ہوتا تھا

یہ سب دیکھ کر میرے بیگ میں پڑے بسکٹس کے پیکٹس ہمیشہ دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے گندگی سے لبریز سیٹوں پر لگے ہاتھوں سے انہیں کھانے کو قطعاً من نہیں کرتا تھا وہ تو بھلا ہو میرے ایک دوست کا جو ان دنوں میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا اس نے مجھے مشورہ دیا کہ تم سفر کے دوران جیب میں ہینڈ سینیٹائزر رکھ لیا کرو میں نے اس کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوۓ سینیٹائزر کی تلاش شروع کر دی پورے لیہ کے سٹورز کھنگالنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ یہاں یہ چیز ملنا تو درکنار یہاں تو لوگ اس کے نام تک سے واقف نہیں ہیں اکثر دوکاندار تو مجھے سینیٹائزر کی جگہہ لیکویڈ سوپ تھماتے نظر آتے

اور اوپر سے پوری یقین دہانی بھی کراتے کہ بھیا آپ جو چیز مانگ رہے ہو وہ اسے ہی کہتے ہیں اتفاقاً ان دنوں لاہور کا چکر لگا تو میں نے اپنی تلاش جاری رکھی آخر دو تین میڈیکل اسٹورز سے ناکامی کے بعد ایک جگہہ سے صرف دو شیشیاں ہی مل پائیں سفر کے دوران میں نے اسے اپنی جیب میں مستقل رکھنا شروع کر دیا اور میرا مسئلہ کافی حد تک حل ہو گیا پھر کسے پتہ تھا کہ اچانک ہم پے پوری دنیا سمیت کرونا کا وبائ قہر ٹوٹ پڑے گا اس وباء کے دوران لوگ پہلی بار براہِ راست سینیٹائزر کے نام سے واقف ہوۓ بڑھتی ہوئ مانگ کو دیکھتے ہوۓ چند زیرک و چالاک لوگوں نے اس میں پیسہ لگانا شروع کر دیا اور اپنا موسمی کاروبار شروع کردیا یوں یہ سینیٹائزر ہماری عام گلی محلوں کی دوکانوں تک سرایت کر گیا

کسی بھی سینیٹائزر کو جراثیم کش اس میں موجود الکحل کی مطلوبہ مقدار بناتی ہے سینیٹائزر چاہے کسی بھی کمپنی کا ہو اس میں الکحل کی مقدار ساٹھ فیصدی تک لازمی ہونی چاہیے ورنہ اس کا استعمال عبث ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک میں نا صرف جعلی ترین سینیٹائزرز کی بھر مار ہو چکی ہے بلکہ ان کی قیمیتیں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر کے آسمانوں سے باتیں کر تی نظر آتی ہیں اور کوئ بھی پوچھ گچھ کرنے والا یا چیک کرنے والا موجود نہیں ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے دوکان دار جو چاہے اور جس قیمت پر چاہے سینیٹائزر بیچتا نظر آتا ہے اکثر سینیٹائزر کی شیشیاں سینیٹائزر کم اور باڈی سپرے محلول زیادہ نظر آتی ہیں جس میں الکحل کی بو کا نام و نشان سونگھنے سے بھی نہیں ملتا

اوپر سے ستم یہ کہ ملکِ پاکستان میں پانچ سو ملی لیٹر سینیٹائزر کی بوتل پچھلے تین ساڑھے تین ماہ میں پانچ سو سے بڑھ کر نو سو پچاس روپے تک ہو چکی ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے پوری دنیا میں کرونا کی وباء سے بچاؤ والی اشیاء کو کم قیمت میں مہیا کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں مہنگائ کا جن بے لگام اور سرِ عام دندناتا پھر رہا ہے ہمسایہ ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے مقابلے میں کہیں کم قیمت میں پانچ سو ایم ایل سینیٹائزر کی بوتل دستیاب ہے اور یہ بھی کافی فکر انگیز بات ہے کہ ہمیں ہر دفعہ ان ممالک کی مثالیں کیوں دینی پڑتی ہیں اگر ایسے ہی کرونا کی لہروں میں شدت آتی رہی تو یہ جلد پندرہ سو تک کا ہندسہ بھی عبور کر جاۓ گی حکومت کو اپنی کارکردگی پر نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے ایس و پیز کی صرف دہائیاں دینے سے کرونا کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس سے متعلقہ چیزوں کو بھی عوام کی پہنچ میں لانا پڑے گا اور یہ تب ممکن ہو گا جب مہنگائ کے طوفان کو قابو میں لایا جاۓ گا تب ہی کہیں جا کے بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں