انجام بھی رسوائی، آغاز بھی رسوائی 144

بھوک اور آنسو

بھوک اور آنسو

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچرنے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو۔ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔ ٹیچرنے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بندکردو کوئی باہرنہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچرنے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھرانہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوںکی تلاشی کی ہدایت کردی کچھ دیر بعد دو لڑکیوںکی تکرار سے اچانک کلاس ایک بارپھر شورسے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔کیا بات ہے؟’’ مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی ۔۔ کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔ٹیچروہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے

کوثر تڑپ کر بولی نہیں۔ نہیں مس میں چورنہیں ہوں
’’چور۔۔نہیں ہو ٹیچر کہنے لگی تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو

’’نہیں۔کوثر نے کتابوںکے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا نہیں میں تلاشی نہیں دوںگی ۔ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی اسے غصہ آگیاٹیچرنے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگ گئی ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ۔رک جائو ٹیچرنے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔انہوںنے طالبہ اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔انہوںنے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا
’’تم نے پیسے چرائے؟
’’نہیں اس نے نفی میں سرہلادیا۔ کوثرکی آنکھوں میں بھر آئے تھے
’’بالفرض مان بھی لیا جائے۔پرنسپل متانت سے بولیں تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوںکیا؟
کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔ٹیچرنے کچھ کہنا چاہا جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھاکر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔ اس میں کیا رازہے ؟ وہ سوچنے لگی اور پھر کچھ سوچ کرٹیچرکو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثرکو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھاکر پھر استفسارکیا اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کردیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اوردھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔

مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیاہو۔ کوثرکی ہچکیاں بندھ گئیں پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر،سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آگیا ۔۔ وہ کاپتے وجودکے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثرکو گلے لگاکر خود بھی رونے لگ گئی۔ کوثرنے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔دیگر3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں والدصاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے

گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبورہوکر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھانا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھالیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا ندیدوںکی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اورہمدرد انسان ثابت ہوا میںنے اسے اپنے حالات سچ سچ بتادئیے اسے بہت ترس آیا

اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتاہے اور گاہکوںکا بچاہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپرمیں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے جو میں کالج آتے ہوئے اٹھاکرکتابوں کے بیگ میںرکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھرلے جاتی ہوں میرے امی ابوکو علم ہے میںنے کئی مرتبہ دیکھاہے لوگوںکا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوںمیں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں۔یہ چھوٹی سی سچی کہانی کسی بھی درد ِ دل رکھنے والے کو جنجھوڑکر رکھ سکتی ہے ہم غورکریں تھوڑی سی توجہ دیںتو ہمارے اردگرد بہت سی ایسی کہی ان کہی کہانیوںکے کردار بکھرے پڑے ہیں اس سفیدپوشوںکیلئے

کوئی بھی جمہوری حکومت کچھ نہیں کرتی ایسے پسے، کچلے سسکتے اور بلکتے لوگوںکو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ڈکٹیٹرراج کررہاہے یا جمہوریت کا بول بالاہے۔ نہ جانے کتنے لاکھوں اورکروڑوں عوام کا ایک ہی مسئلہ ہے دووقت کی روٹی جو بلک بلک کر تھک گئے ہیں اے پاکستان کے حکمرانو!خداکے واسطے رحم کرو۔۔ غریبوںسے ہمدردی کرو ۔ان کو حکومت یا شہرت نہیں دووقت کی روٹی چاہیے حکمران غربت کے خاتمہ کیلئے اناج سستاکردیں تو نہ جانے کتنے لوگ خودکشی کرنے سے بچ جائیں۔یقینا ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچاہوگا کہ ہم روزانہ کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں اور کتنے لوگ بھوک ،افلاس کے باعث دانے دانے کیلئے محتاج ہیں رزق کی حرمت اور بھوکے ہم وطنوںکااحساس کرناہوگا حکمران کچھ نہیں کرتے نہ کریں ہم ایک دوسرے کا خیال کریں ایک دوسرے کے دل میں احساس اجاگرکریں یہی اخوت کا تقاضاہے اسی طریقے سے ہم ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹ سکتے ہیں ازمائش شرط ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں