گوہرِ نایاب شاعرہ عابدہ بیگم
عمرین نواز(نارووال)
وقت اور حالات کسی بھی انسان کے سب سے بڑے استاد ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو وہ سب سکھا دیتے ہیں جو دنیا میں موجود کوئی ماہر سے ماہر استاد بھی نہیں سکھاسکتا۔رویوں کی آنچ پر گرم کر کے, تجربات کی ہتھوڑی سے ضرب لگا کر، صدمات کے سانچے میں ڈھال کر وقت جب کسی کے احساسات کو زبان و بیان دے دے تو ایک آہنگ اور جنم لے لیتی ہے۔ جسے عام طور پر شاعری کہتے ہیں اور ان احساسات کا مالک شاعر کہلاتا ہے۔محترمہ عابدہ صاحبہ بھی ایک ایسی ہی شاعرہ ہیں جنہوں نے وقت اور حالات کے سکھائیں گئے اسباق کو شعری سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
محترمہ عابدہ صبا 10 مارچ کو صوبہ” خیبرپختونخوا ”کے ایک شہر” بنوں” میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام محمد امیر خان ہے۔ آپ کے والد ایک سرکاری محکمہ میں ملازمت کی وجہ سے اپنے خاندان کے ہمراہ قریہ قریہ گھومتے رہے۔اسی وجہ سے مختلف لوگ اور ان کے مزاج اور روایات سے آشنائی نے صبا صاحبہ کے اندر جمالیاتی تجسس کے رنگ بھر دیئے۔ ان کا خاندان یہ سفر طے کرتا کرتا آخرکار کرک شہر میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگیا۔
عابدہ صاحبہ کا خاندان ایک روایتی پٹھان خاندان تھا۔ لیکن دادا اور والد نے اپنے خاندان کے برعکس اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔اور بچیوں نے بھی اس بات کا احسن بدلہ خوب محنت اور لگن سے پڑھائی کر کے دیا اور آج عابدہ صاحبہ ایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کر چکی ہیں. اور ایم اے اردو ادب کے امتحانات بھی دے چکی ہیں۔ اس کے علاوہ (ڈی. آئی. ٹی) کا ایک سالہ ڈپلومہ بھی مکمل کیا ہیاور اب درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں-گویا انہوں نے اپنے والد اور دادا کے اس فیصلے کو صحیح ثابت کرکے دکھایا۔آپ کو بچپن سے شاعری اور اچھی نثر پڑھنے کا شوق رہا-
اکثر سکول کی تقریری مقابلوں کے لیے تقاریر لکھیں جس میں مختلف انعامات بھی ملتے رہے۔ لیکن شاعری لکھنے کا خیال نہ آیا۔ مگر 2018 میں ازدواجی زندگی کے 9 سال بعد شوہر کے قتل اور بیٹی کی جدائی نے بالآخر ان کے حساس دل و دماغ پر اس بری طرح ضرب لگائی کہ اندر کا درد شعروں کی صورت لینے لگا۔وہ لکھتی ہیں” ہم حساس لوگ,جب ہمارے اندر کا شور اتنا بڑھ جائے کہ باہر کی آوازیں ہمارے کانوں کے پردے پر دستک دینا بند کر دیں تب ہم کاغذ اور قلم کا سہارا لیتے ہیں اور جو کچھ لکھتے ہیں انہیں لوگ شاعری کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے لئے تو وہ بس شور ہوتا ہے۔ ہمارے اندر کا تکلیف دہ اور چبھتا ہوا شور”۔ آپ اردو شاعری کرتی ہیں-
ابتدا میں شاعری کے علم عروض سے آگہی نہ تھی۔ لیکن سوشل میڈیا پر ایک گروپ میں جب انہوں نے اپنی ایک آدھ غزل شیئر کی تو” ساگر اعجاز صاحب ”جن کا اصل” نام اعجاز علی ابن امام” ہے نے انہیں علم و عروض سکھانے کی حامی بھری۔اعجاز ساگر صاحب خود بھی ایک منجھے ہوئے شاعر ہیں۔ جنہوں نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کی تھی اور اب ان کی اردو، سندھی غزل اور نظم میں 6 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ محترمہ عابدہ صاحبہ نے بھی ان کی رہنمائی میں غزل نظم لکھنا اورعلم عروض سیکھنا شروع کیا اور اب تک کئی مختلف اخبارات میں ان کی شاعری شائع ہو چکی ہے
۔جن میں: روزنامہ تا حیات خانیوال، نئی خبر، روزنامہ مناقب، سیاسی افق، افکار افق، میری خبر، شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے نثر پر بھی تھوڑی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تحریریں ماہنامہ ”نئے افق” میں شائع ہو چکی ہیں۔دو شعری مجموعوں میں ان کی شاعری جگہ بنا چکی ہے اور عنقریب ان کا اپنا شعری مجموعہ بھی منظر عام پر آ جائے گا۔
ہر لکھاری چاہے وہ شاعر ہو یا نثر نگار کچھ موضوعات پر خصوصی توجہ دیتا ہے.گویا کسی بھی شاعر اور نثر نگار کی نگارشات میں ان کی پسند اور ناپسند دیکھی جا سکتی ہے۔عابدہ صبا کی شاعری اور نثر پاروں میں یہ بات باخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔آپ کی شاعری میں معاشرتی ناہمواریوں، مادیت پرست رویوں اور حقائق کی تلخی دیکھی جا سکتی ہیں۔جیسے وہ لکھتی ہیں:
دل کی دل میں رہے تو اچھا ہے
آج کل رازداں نہیں ہوتے
چارشعروں کی اک غزل میں دکھ
زندگی کے بیاں نہیں ہوتے
اور
کل ٹھٹھر کر مرا تھا رستے پر
سب نے تصویر جس کے لیے جاناں
کیا مصور بنا بھی پائے گا
ہے جو آنکھوں میں بے بسی جاناں
اور
قدر روٹی کی اس سے پوچھو نا
کوڑے دانوں سے جس نے کھائی ہے
ہنستے بچوں کی آنکھیں نم دیکھیں
گرم جیکٹ جنھیں دلائی ہے
البتہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر وہ لکھنے کی خواہش مند ہیں اور وہ ہے” محبت ”۔ وہ لکھتی ہیں” محبت ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں مجھے لگتا ہے کہ میں ابھی کچھ بھی نہیں لکھ پائی۔لیکن محبت مجھے جتنی مقدس لگتی ہیں اور آج کل جس کھیل کو لوگوں نے محبت کا نام دے دیا ہے۔ اس نے مجھے چکرا کر رکھ دیا ہے۔اس لیے ہمیشہ یہ خواہش رہے گی کہ میں محبت کے بارے میں کچھ اچھا اور کچھ لکھ سکوں۔وہ لکھتی ہیں:
کہہ دو اپنوں سے ہی وفا سیکھو
دم کسی غیر کا جو بھرتے ہیں
کھیل ان کے لیے محبت ہے
روز اک ”جان” پر یہ مرتے ہیں
محترمہ عابدہ صاحبہ! مطالعے کی شوقین ہیں۔ انہیں کلام اللّہ سے بہت محبت ہے۔ اور باقی کتب میں سے پسندیدہ کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں:”لکھاری جو بھی لکھتے ہیں اپنے لہو سے جذبوں کی خوبصورت رتوں کو سینچ کر صفحہ قرطاس پر بکھیرتے ہیں۔ایسے میں کسی کو نامزد کرنا یا کسی خاص کتاب کو نامزد کرنا میرے لیے آسان نہیں”۔ پسندیدہ لکھاریوں میں پطرس بخاری, مستنصر حسین تارڑ, اشفاق احمد,احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی شامل ہیں”۔
حاصل ہونے والے اعزازات اور کامیابی کی بارے میں بتاتی ہیں۔ کامیابی اور سکون دو الگ الگ چیزیں ہیں۔جتنی کامیاب ہوتی ہوں اتنی بے چین ہو جاتی ہوں۔ وہ بتاتی ہیں کہ البتہ سب سے بڑا اعزاز میری کی ایک ٹیچر کی بات ہے.دراصل آج کل میں جس سکول میں پڑھاتی ہوں۔ اس سکول کی صدر معلمہ مجھے بچپن میں پڑھا چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ
جب میں نے” ٹیچر ڈے ”انہیں وش کیا اور ان کے گلے لگ کر کہا مجھے فخر ہے کہ میں آپ کی شاگرد ہوں تو انہوں نے کہا ‘ نہیں میری جان اصل میں تو مجھے فخر ہے کہ میں تمہاری ٹیچر ہوں’ ان الفاظ سے جو خوشی مجھے ملی تھی ابھی تک نہیں بھولی”۔
محترمہ عابدہ صاحبہ! اپنے پڑھنے والوں کو پیغام دیتی ہیں ”زندگی خوبصورت ہے اور اس کو جینے کا حق جتنا آپ کو حاصل ہے اتنا ہی دوسروں کو بھی حاصل ہے. خود بھی جئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔دوسروں کو ہر وقت تنقید کا نشانہ بنانا چھوڑ دیں. کیونکہ اس سے آپ کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن کسی انسان کے دل میں جو شکست و ریخت شروع ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف سہنے والوں کو ہی ہو سکتا ہیں”
اللہ ان کے قلم میں مزید بر کت دے آمین ثم آمین۔
مجھے فخر ہے کہ” محترمہ عابدہ صبا” میری استاد ہیں۔ امید ہے ان کی شفقت سایہ میں ایک دن میں بھی عمدہ اور باوزن شعر کہنا سیکھ جاؤں گی۔ اللّہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ سلامت اور خوش وخرم رکھے۔ آنے والی زندگی میں بہت ساری ترقیاں نصیب ہوں۔
آمین ثم آمین