فرانس سے تعلقات توڑنے کا نقصان فرانس کو نہیں صرف ہمیں ہوگا،وزیراعظم
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)وزیراعظم عمران خان نے موجودہ ملکی معاملات پر قوم سے خطاب میں کہا کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا تو کوئی دوسرا یورپی ملک ایسا ہی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ سفیر کو واپس بھیجنے سے فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیا گارنٹی ہے کہ سفیر کو واپس بھیجنے سے دوبارہ گستاخی نہیں ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ فرانس سے تعلقات توڑنے کا نقصان فرانس کو نہیں صرف ہمیں ہوگا، بڑی مشکل سے ملکی معیشت اوپر جانے لگی ہے، روپیہ مستحکم ہورہا ہے، چیزیں سستی ہورہی ہیں، اگر فرانس سے تعلق توڑا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم یورپی یونین سے تعلق تورڑیں گے اور ایسا کرنے سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نقصان پہنچے گا کیوں کہ پاکستان کی آدھی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ یورپی ممالک میں ہوتی ہیں۔
جب ٹیکسٹائل سیکٹر پر دباؤ آئے گا تو روپیہ گرے گا، مہنگائی ہوگی، بے روزگاری بڑھے گی، نقصان ہمیں ہی ہوگا، فرانس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے دوبارہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ کوئی دوسرا یورپی ملک اس معاملے کو آزادی اظہار کا معاملہ بناکر ایسا ہی کرے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ہماری ٹی ایل پی کے ساتھ دو ڈھائی مہینے سے اس معاملے پر بات چیت جاری تھی، ان کا مطالبہ تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے، ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا کرنے سے نقصان ہمارا ہی ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر آئیں، ہم معاملہ پارلیمنٹ میں لانے کی تیاری کررہے تھے لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ نچلی سطح پر یہ لوگ اسلام آباد آنے کی تیاری کررہے ہیں اور ان کا مطالبہ سفیر کی ملک بدری ہی ہے، اس کے بعد ان سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ کرکے کوئی فائدہ نہیں، دنیا میں 50 مسلم ممالک ہیں لیکن کہیں بھی ایسا نہیں ہورہا۔
ٹی ایل پی اور ہمارا مقصد ایک ہی ہے کہ آئے دن شان رسالت میں گستاخی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی اور ہمارا مقصد ایک ہی ہے کہ آئے دن شان رسالت میں گستاخی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمارا اور ٹی ایل پی کا طریقہ مختلف ہے، فرانس کے سفیر کو نکال کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے میری حکمت عملی ذرا مختلف ہے، میرے حساب سے تمام مسلم ممالک کو متحد ہوکر اس معاملے پر تمام بین الاقوامی فورمز یورپی یونین، اقوام متحدہ وغیرہ میں اس پر بات کرنی چاہیے اور انہیں سمجھانا چاہیے کہ کیوں ہماری دل آزاری ہوتی ہے، مغرب میں لوگ مذہب کے اتنا قریب نہیں جتنا ہم ہیں لہٰذا انہیں اس چیز کی سمجھ ہی نہیں کہ مسلمانوں کو کیوں تکلیف ہوتی انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے اور جب ہم سب مسلم ممالک مل کر یہ بات کریں گے تب اس کا اثر ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ صرف پاکستان کے بائیکاٹ سے مغرب کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، تمام مسلم ممالک کو اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ مغرب کو یہ متفقہ پیغام دیں کہ اگر کسی بھی ملک میں اس طرح کی گستاخی کی گئی تو ہم سب اس سے تجارتی تعلقات منقطع کریں گے تب جاکر انہیں احساس ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تھوڑے سے یہودیوں نے مل کر مغربی دنیا کو یہ باور کرادیا کہ ہولوکاسٹ پر بات کرنے سے ان کی دل آزادی ہوتی ہے تو کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟ ایسا تب ہوگا جب ہم بھی مل کر آواز اٹھائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ انہیں بات سمجھ آئے گی، ابھی جب ہم احتجاج کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار رائے کیخلاف ہیں اور پھر وہ بجائے اس کو سمجھنے کے جان بوجھ کر دوبارہ شرارت کرتے ہیں ہمیں تکلیف دینے کیلئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب 50 مسلمان ملک مل کر یہ کہیں گے کہ اگر کسی ملک کی طرف سے ایسا کیا گیا تو ہم سب مل کر ان کا تجارتی بائیکاٹ کریں گے، اس کا اثر ہوگا، اس طرح ہم اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو دو طریقے بتائے، ایک ٹی ایل پی کا طریقہ ہے جس پر ہم ساری زندگی لگے رہیں صرف اپنے ملک کو ہی نقصان پہنچائیں گے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، جو میں مہم چلارہا ہوں میں یقین دلاتا ہوں کہ یہی طریقہ ہے، ایک دن ان کو سمجھ آجائے گی اور وہ دن دور نہیں ہے، میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں، میں اس مہم کی قیادت کروں گا، اپنی قوم اور مسلمانوں کو مایوس نہیں کروں گا، ہم ان کو ایک دن سمجھادیں گے کہ جب آپ یہودیوں کو تکلیف نہیں دینا چاہتے تو ہم تو سوا ارب مسلمان ہیں، ہمارے بھی دل ہیں، ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے اور جیسے ہی انہیں سمجھ آگئی ہم اپنے مقصد پر پہنچ جائیں گے۔
وزیراعظم نے یقین دلایا کہ وہ اس مہم کی قیادت کریں گے اور وہ دن دور نہیں جب مغرب کو احساس ہوگا۔
احتجاج سے ملک کو ہی نقصان پہنچا
وزیراعظم نے احتجاج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اب تک 40 پولیس کی گاڑیوں کو جلا دیا گیا ہے، لوگوں کی نجی املاک کا نقصان ہوا، 4 پولیس اہلکار شہید ہوئے، 800 سے زائد زخمی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے دن کے احتجاج میں 100 سڑکیں بلاک کردیں، اس سے عوام کو نقصان ہوا، کورونا کے سلنڈرز نہ پہنچنے کی وجہ سے اموات ہوئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس کے علاوہ انتشار کا فائدہ اٹھانے کیلئے بیرونی قوتیں بھی اس میں کود پڑیں۔ ابھی تک ہم نے 4 لاکھ ٹوئٹس کا جائزہ لیا ہے جن میں سے 70 فیصد جعلی اکاؤنٹس سے کی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ہندوستان کے 380 گروپس اس حوالے سے واٹس ایپ گروپ میں جعلی خبریں پھیلارہے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس معاملے پر ہماری سیاسی جماعتیں خاص طور پر فضل الرحمان کی جے یو آئی بھی شامل ہوگئی تاکہ کسی طرح حکومت کو غیر مستحکم کیا جاسکے، ساتھ ن لیگ بھی آگئی، ان سے میں پوچھتا ہوں کہ جب سلمان رشدی نے کتاب لکھی تھی تو نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تھے، انہوں نے کتنے بیانات دیے، کتنے فورمز پر انہوں نے کہا کہ یہ بڑا غلط کام کیا ہے، کتنی دفعہ کسی بھی سربراہ مملکت نے کسی بھی فورم پر اس معاملے پر بات کی تھی؟ لیکن آج صرف انتشار پھیلانے کیلئے ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنے ملک میں مظاہرے کرنے اور احتجاج سے فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حکومت نے ناموس رسالت کے معاملے پر اب تک کیا کیا؟
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے جون 2019 میں اسلامی تعاون تنظیم کی 14ویں سمٹ میں پہلی بار میں نے جاکر اسلاموفوبیا کی بھی بات کی اور کہا کہ ناموس رسالت کے معاملے پر ہم سب کو ملک کر مغرب کو سمجھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ستمبر 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھایا، پھر 2020 میں بھی اسی فورم پر اسلامو فوبیا کی بات کی۔
وزیراعظم نے بتایا کہ پھر میں نے فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو خط لکھا کہ فیس بک کو اسلاموفوبیا کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ پھر جب یہ فرانس میں ہوا جس پر ٹی ایل پی کہہ رہی ہے کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجو، میں نے تمام مسلم ممالک کے سربراہان کو خط لکھا اور کہا کہ ہمیں مشترکہ ایکشن لینا چاہیے۔
وزیراعظم کی علماء سے اپیل
وزیراعظم نے علماء سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں حکومت کے ساتھ مل کر ان کی تائید کریں کیونکہ یہ سب جو ہورہا ہے اس سے ہمارے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔