"پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن فراڈ" 191

’’پی پی 84 ضمنی الیکشن، بازی پلٹ سکتی ہے؟‘‘

’’پی پی 84 ضمنی الیکشن، بازی پلٹ سکتی ہے؟‘‘

تحریر محمد اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر03008600610
وٹس ایپ،03063241100
خوشاب کے حلقہ پی پی 84میں ضمنی الیکشن کا معرکہ 5مئی کو ہونے جارہا ہے،جس کے لئے میدان لگ چکا ہے اور سیاسی کھلاڑیوں نے اپنے حامی امیدوار کو جتانے کیلئے لنگوٹ کس لئے ہیں،حلقہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی سر عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اور بڑے بڑے پینافلیکس ہورڈنگ بورڈ پورے حلقہ میں لگے نظر آ رہے ہیں، اور رمضان المبارک ہونے کی وجہ سے امیدواروں کی جانب سے سحری وافطار ی کے ساتھ ووٹرز کی مختلف طریقوں سے خاطر مدارت کی جا رہی ہے، اور حلقہ کے دو امیدوار جن کا تعلق بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے اپنی انتخابی مہم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں طے شدہ سے زیادہ سرمایہ خرچ کررہے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اس معاملہ کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا، سو یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے وہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو روکتا ہے یا پھر حسب معمول کھلی چھٹی دیئے رکھتا ہے، راقم کواس سے کوئی سروکار نہیں ہے،

اب آتے ہیں پی پی 84 کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورت حال کی طرف، پی ٹی آئی کی مقامی سیاسی قیادت حلقہ پی پی 84 میں الیکشن لڑنے کی بجائے آپس میں لڑنے میں لگی ہوئی ہے اور بہت زیادہ وقت ایک دوسرے سے ٹکٹ چھیننے میں ضائع کر چکی ہے ،حقائق دیکھے جائیں تو الیکشن کمپین میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں، اور پی ٹی آئی نے پہلے گل اصغر بگھور کو ٹکٹ دیا تھا جس پر ایم این اے احسان ٹوانہ کے علاوہ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت متحد تھی احسان ٹوانہ کی شفارس کہہ لو یا دھمکی،کپتان نے ٹکٹ تبدیل کرکے حسین خان بلوچ کو دے دیا ہے، جس پرتحریک انصاف بطور جماعت مقامی سطح پر منتشر نظر آرہی ہے، جبکہ اب مختلف برادریوں کے سربراہوں سے ملاقات کے لئے ٹائم بھی انتہائی محدود ہے،

گل اصغر بگھور کے ٹکٹ پر پی ٹی آئی کے ڈویژن بھر کے ایم این ایز ایم پی ایز ان کے شانہ بشانہ تھے ، جبکہ موجودہ ٹکٹ پر ضلع خوشاب کے اکثریت عوامی نمائندے دلچسپی لیتے نظر نہیں آرہے، جس کی ایک وجہ ملک میں تحریک انصاف کے دور میں مہنگائی، بیروزگاری، غربت و افلاس میں اضافہ ہے، جس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے، سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ موجودہ پی ٹی آئی کے موجودہ ٹکٹ ہولڈ ر کے حامیوں نے مرکزی قیادت کو بلیک میل کیا ،گل اصغر نے قیادت کو اپنی ذات کی حد تک یقین دہانی کروا دی ہے کہ وہ کپتان کے نامزد امیدوار کو ووٹ دیں گے،

مگر اپنے دوستوں کے جذبات سے بھی آگاہ بھی کیا ہے،جس پر قیادت نے انہیں فیصلے میں آزاد رکھتے ہوئے الیکشن 2023میں ٹکٹ کی نوید سنائی، تاہم گل اصغر نے ہنگامی طور پر پیدا شدہ مسلے کو حل کرنے کے لئے نیشنل اسمبلی کے حلقہ میں شامل یونین کونسلوں سے اپنے سپورٹران سے باضابطہ مشاورت کا آغاز کرکے خود کومضبوط اعصاب رکھنے والا سمجھدار سیاست دان ثابت کیا ہے۔ مجموعی طور پر تحریک انصاف اپنے تبدیل شدہ امیدوارکے حق میں کوئی قابل ذکر سیاسی مہم جوئی کرتی نظر نہیں آ رہی ، تحریک انصاف کی تمام تنظیمیں اپنے اپنے دفاتر تک اپنے امیدوار کی انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں، اور بے دلی سے الیکشن کے ماحول کو دیکھ رہی ہیں، تحریک انصاف کے کچھ لوگوں نے پارٹی کے

موجودہ امیدوار کو بی ٹی آئی (بلوچ ٹوانہ اتحاد) کا امیدوار کہنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے پارٹی کے اندر موجود ناچاکی اور بھی واضع ہوتی نظر آرہی ہے ،تحریک انصاف کے منتخب عوامی نمائندے الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی کے باعث حلقہ میں جانے سے قاصر ہیں تو صف اول کی ضلعی قیادت بھی اپنی ذاتی سرگرمیوں میں الجھی نظر آتی ہے ، پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت اپنے ذاتی وسائل اور ذاتی تعلقات و دلچسپی کی بنیاد پر اس کوہ گراں کو سرکرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے ،سوشل میڈیا پر کئے جانے والے بلند و بانگ دعوئوں کے سچ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بہر حال الیکشن کے دن کے نتائج سے مشروط ہے، تاہم پی ٹی آئی کے خوشاب سے ایم این اے عمر اسلم اعوان کے

حامیوں کی طرف سے دعویٰ کیا جارہاہے کہ حکومت نے خوشاب کیلئے اربوں روپے کے پیکج کی منظوری دے دی ہے ،جبکہ مخالف سیاسی حلقے اس پیکج کو دیوانے کی بڑھ قرار دے رہے ہیں اور عوام کو باور کرارہے ہیں کہ الیکشن مہم کہ دوران ایسا کوئی پیکچ حکومت اناونس ہی نہیں کر سکتی، تاہم دوسری طرف ن لیگ کے کیمپ میں باہمی سیاست کے رجحان کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ، ماضی قریب میں ٹوانہ گروپ کی حامی سابقہ خاتون ایم این سے اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر پارٹی کے اندر اپنے مخالف دھڑے کے شانہ بشانہ نظر آرہی ہیں، جو مسلم لیگ (ن) کیلئے نیک شگون ہے، جبکہ انہوں نے پی پی 83پر اپنے سیاسی و روائتی اتحادی ملک آصف بھا کو بھی مسلم لیگ ن کے سٹیج پر رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے ، تھل میں اگرچہ پی پی 83کے سیاست دانوں کا کوئی خاص ووٹ بینک نہیں ہے تاہم اتحاد کی علامت کے طور پر مختلف علاقوں کے دوروں نے سیاسی ماحول گرما گرم کر دیاہے ، ملک وارث کلو کی ناگہانی موت کے نتیجہ میں ہونے والے ضمنی

الیکشن میں ان کا بیٹا معظم کلو الیکشن لڑ رہا ہے، ملک شاکر بشیر اعوان جو کہ 2018میں ملک احسان اللہ ٹوانہ سے محض چند ہزار ووٹوں کے فرق ہارے تھے، حلقہ میں بھرپور انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں ان کے جواں سال بیٹے ملک سعد بشیر جن کو حال ہی میں لیگی قیادت نے ضلعی صدارت یوتھ ونگ کی ذمہ داریاں سونپی ہیں ، تھل میں یوتھ کو منظم کرنے میں مصروف ہیں ، حلقہ میں تیسرے اہم امیدوار جن کے حوالے سے خبریں ہیں کہ وہ بگھور گروپ کے ساتھ رابطہ میں ہیں وہ ملک امجد رضا گجر ہیں ، ملک شاکر بشیر اعوان سے سابقہ وابستگی کی بنیاد پر اور خاندانی شرافت و رکھ رکھائو کی وجہ سے موصوف تھل میں قابل ذکر تصور ہوتے ہیں ،ملک امجد گجر کے والد ملک کاظم علی گجر اعلی عدلیہ میں منصفانہ خدمات کے عوض اور تھل میں شفاف شخصیت کی بنیاد پر ایک مثبت شناخت رکھتے ہیں جبکہ ان کے چچا ملک ناصرعلی گجر اہلیان تھل کی ہر خوشی غمی

میں شریک ہوکر اپنائیت کا احساس بنائے رکھتے ہیں ، اگر گل اصغر بگھور کے حامیوں کے سیاسی حمایت کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی میں شامل 22یونین کونسلوں سے شامل 12افرادنے تحریک انصاف کے موجودہ ٹکٹ ہولڈر کی بجائے ملک امجد رضا گجر کے حق میں فیصلہ دے دیا تو صورت حال یکسر تبدیل ہوجائے گی اور ممکنہ طور پر امید واروں کے ووٹ کے نمبروں میں تبدیلی آسکتی ہے ، تحریک لبیک پر عائد سرکاری و ریاستی پابندی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس جماعت سے وابستہ نظریاتی ووٹ غم وغصہ کے اظہار کے طور پر تحریک انصاف امیدوار کیخلاف کاسٹ ہونگے، گویا عین ممکن ہے کہ تحریک لبیک کے حامی ووٹرز مجموعی طور پر مسلم لیگ ن یا آزاد امیدوار کی طرف اپنا جھکاو بنائیں ، حلقہ پی پی 84کے

موجودہ الیکشن اور اس حوالے سے جاری مہم سے واضع طور پر نظر آرہا ہے کہ ضلع خوشاب میں ووٹرز پر سیاسی جماعتو ں کی گرفت کمزور ہوئی ہے ،تمام تر سیاسی صورت حال میں جو افسوس ناک پہلو سامنے آیاہے وہ سیاسی عدم برداشت کا ہے ، جس کا اظہار عملی اور زبانی دونوں طور پر حلقہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور متحارب دھڑے سرعام حلقہ میں گھومتے نظر آرہے ہیں، عوامی سماجی حلقوں میں اس روّیے پر شدید تشویش دیکھنے کو مل رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ خدا نہ کرے کہ حالات این اے 75 جیسے پیدا ہو رہے ہیں، الیکشن کے نتائج جو بھی ہوں ، موجودہ حکومت کے باقی ماندہ عرصہ میں فنڈز کا اجرا ایک لازمی امر ہے ، تحریک انصاف کا موجودہ نامزد امیدوار کامیاب ہونے کی صورت میں فنڈز ایم این اے اور ایم پی اے میں تقسیم ہوجائیں گے ، لیکن ہار کی صورت میں تمام فنڈز ایم این اے کے ذریعے حلقہ این اے 94میں میسرہوں گے ، حلقہ کے انتخابی نتائج میں جو کچھ بھی ہو گا یہ کہنا تو قبل از وقت ہے، مگر ایک بات جو شاید کم ہی لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ تھل کے الیکشن کا اپنا الگ مزاج ہے ، جو نہ تو شہری ہے اور نہ ہی دیہاتی ، تھل ، تھل ہے جس کو چاہے جل تھل کردے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھی پی پی 84میں ضمنی الیکشن کی تو اس سلسلہ میں حلقہ میں میدان سج چکا ہے حکومت اپنے امیدوار کو جتانے کے لئے تمام جتن کررہی ہے تو مسلم لیگ ن اپنے امیدوار جس کے والدکی وفات پر اس نشست پر ضمنی الیکشن ہورہا ہے کو کامیاب کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے جبکہ آزاد حیثیت سے امجد گجر سیاسی میدان میں اپنی پہلی انٹری کو بھرپور بنانے کیلئے بھرپور وسائل استعمال کررہے ہیں،پی پی 84میں کامیابی کی ہمہ کس کے سر بیٹھے کی اس کا فیصلہ 5مئی کوپولنگ کے بعد ہی سامنے آئے گا اس بارے قبل از وقت کچھ کہنا دانشمندی نہیں ،کیونکہ سیاست بڑی بے رحم ہے جس میں آخری لمحے بھی کھلاڑی بازی پلٹ سکتا ہے سو حتمی فیصلہ کن نتائج کیلئے پولنگ کے دن کا انتظار کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں