جو ڈر کیا سو وہ مرنے سے پہلے مرگیا
نقاش نائطی
۔ +966504960485
رمضان المبارک کا مہینہ صرف دن بھر بھوکے رہ کر وقت الافطار مختلف انواع اقسام کے کھانے مشروبات پر ٹوٹ پڑتے کے لئے ہی ہے؟ ، یا تروایح کی آٹھ بیس رکعتیں پڑھ کر کچھ دعائیں مانگنے اور پورے مہینے میں پورا قرآن خود پڑھنے یا کسی حافظ کی پڑھی تلاوت کو سننے ہی کے لئے ہے؟ یا افطار پارٹیوں کے مزے لوٹنے ہی کے لئے ہے؟ بلکہ اسی رمضان المبارک کے پاک مہینے میں ہمارے آقاء نامدار سرور کونین خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ نے 2 ھجری کا 17 واں روزہ رکھ کر جوان بوڑھے بچوں پر مشتمل 313 نفری لشکر لئے، نہایت تجربہ کار لڑاکو ایک ہزار فوجیوں کے ساتھ جنگ کر، کفار مکہ کو شکست فاش دیتے ہوئے اسلام کے پرچم کو جس طرح لہرایا تھا اس دن کی سعودبتوں کو یاد رکھتے ہوئے اپنے میں وہ جہادی جذبہ زندہ رکھنے کا دن کیا نہیں ہے؟
93 ھجری 22 سے 28 رمضان المبارک کے آخری عشرے کے مبارک ایام میں صرف 12 ہزار مسلم افواج کے ساتھ عظیم اسلامی جرنیل طارق بن زیاد کے ایک بہت بڑے مسیحی افواج کو شکست فاش دے آدھے یورپ پر 800 لمبے سال تک اسلامی پرچم لہرانے کی بنیاد ڈالنے والے دن کی یاد کرتے ہوئے، اپنے قلب واذہان میں جہادی جذبہ جاگزین کرنے کے لمحات کیا نہیں ہیں؟
اپنے وقت کی نہایت ظالم و جابر منگول حکومت جن کا اسوقت تک آدھی دنیا پر راج تھا۔ متواتر جیت سے سرشار منگول مصر کی فاطمی حکومت پر یلغار کے لئے آگے بڑھے تو اس وقت اسی رمضان المبارک کے پاک مہینے میں مصری مملکوں کی ایک چھوٹی سی فوج نے جالوت کے مقام پر منگولوں کو شکت فاش دیتے ہوئے، نہ صرف منگولوں کے پورے عالم کو فتح کرنے کے عزائم کو خاک میں ملایا تھا بلکہ بعد میں منگولوں کے ماتحت چلے گئے دمشق سے سمرقند تک مسلم حکومتوں کو آزاد کرانے کے راستے وا کئے تھے۔ کیا یہ رمضان المبارک کے متبرک ایام ہمیں اپنی شاندار اسلامی تاریخ کو یاد رکھنے کی فکر نہیں دلاتے ہیں؟
8 ھجری والے 10 سے 20 رمضان کے وہ مبارک دن جس میں آپ ﷺ اپنی سالاری میں مدینے سے ایک لشکر جرار لئے مکہ فتح کرنے نکلتے ہیں۔ مسلمانوں کے عظیم لشکر کے سامنے کفار مکہ مقابلہ کرنے کے بجائے خود سپردگی کرتے ہیں اور یوں فتح مکہ کا وہ دن پورے عالم کے لئے ایک مثالی رہنما دن بن جاتا ہے۔ ان ایام فاتح افواج جب کسی علاقے شہر میں داخل ہوتے تھے تو قتل و غارت گیری لوٹ مار، نساء کی عزتوں کی پامالی اپنے عروج تک پہنچا کرتی تھی لیکن ہمارے آقاء نامدار رحمت للعالمین محمد مصطفی ﷺ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ جس نے کعبہ اللہ کی پناہ میں آپنے کو حوالے کیا یا کسی نے دشمن افواج کے سالار ابوسفیان کی پناہ لے لی ان سبھوں کو عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے عفو و درگزر کی ایک عظیم مثال بھی اسی رمضان المبارک دوسرے عشرے میں کردکھائی تھی
“جو قوم اپنے شاندار ماضی کو یاد رکھ اپنے تابناک مستقبل کے منصوبے تیار کرتی ہے اس قوم کو عالم کی کوئی طاقت زیر نگیں بنانے کی ہمت نہیں کیا کرتی”۔ آج عالم کی دوسری بڑی اکثریت ڈھائی تین سو کروڑ ہم مسلمان کفار و یہود و ہنود و نصاری کی جوتیوں کی نوک پر ڈالے گئے ہیں کیا آج کے ہم مسلمان اس رمضان کے مبارک کے مہینے میں، اسلام کی عالم میں ترویج کا سبب بننے والے ان واقعات کو یاد کر اپنے میں ایک حد تک پس مزدہ جہادی جذبہ کو سرشار و تابندہ کرنے کا وقت نہیں ہے؟