کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 218

ہر کسی کو موت بعد ایشور اللہ کے سامنے اپنے کرموں کا حساب چکانا ہے

ہر کسی کو موت بعد ایشور اللہ کے سامنے اپنے کرموں کا حساب چکانا ہے

نقاش نائطی
۔ +966504960485

کسی کے بھی مرنے کے بعد عموما اسکی مدح سرائی کچھ اس طرح سے بڑھا چڑھاکر کی جاتی ہے کہ مرنے والے کے اعزہ کو گمان گزرتا ہے کہ کیا یہ وہی انکا اپنا مرا ہے جن کی یوں اور ایسی تعریف ہورہی ہے؟دیش کے نامور مگر متنازع فیہ ٹی وی اینکر روہت سردانہ کی، دیش کے مقتدر حلقوں تک اتنی اچھی رسائی باوجود، عین جوانی میں انکے اس کسم پرسی سے داعی اجل لبیک کہتے چلے جانے نے، انکے ہم عصر بہت سے نامہ نگار میڈیا پرسنل کو ضرور متنبہ کردیا ہوگا کہ جن کی بے جا صناخوانی میں دیش کی جنتا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیابی جو انہوں نے حاصل کی تھی

بعد مرگ ایشور اللہ کے سامنے ان کے لئے پشیمانی کا باعث بن چکی ہے۔اب روہت سردانہ ہزار چاہیں عوام کو گمراہ کرنے کی انکی لغزش پر، وہ نہ کوئی پچھتاچاپ کرسکتے ہیں یا کوئی تلافی۔اس کے لئے ایشور اللہ کے پہلے سے طہ شدہ ماپ ڈنڈ مطابق انہیں سزا بھگتی ہوگی۔ لیکن انکے ہم عصر میڈیا کرمی جو ابھی بھی، وقت کے ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے انکی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے انہیں آسمان کی بلندیوں پر چڑھانے میں اسی ایشور اللہ کی بنائی کروڑوں عام جنتا کو جو وہ دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں، انہیں بھی بعد الموت اپنے ایشور اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑیگا۔

اور کس کی بھی موت کب آئے گی یہ ہم میں سے کسی بھی انسان کو نہیں معلوم۔ جب اس دھرتی کےمالک اس عالم یا برھمانڈ کے پالن ہار ایشور اللہ کی طرف سے بلاوا آئیگا تو اپنے آپ کو اس دھرتی کے بھگوان سمجھنے والے مہا شکتی سالی 56″ سینے والے نیتا یا گیروے کپڑے صدا پہنے اپنے آپ کو یوگی مہاراج کہلوانے والے پاپی بھی، نہ اس دنیا میں انہیں مرنے سے بچا پائیں گے اور نہ بعد الموت ایشور اللہ کےقہر سے انہیں نجات ملیگی۔ ہم مسلمانوں کے اللہ نے ہمیں صاف صاف بتادیا ہے کہ اسکی بگھتی سے زیادہ اس کے لئے، اسکے اپنے پیدا کئے عام جنتا کی خدمت ہی سے وہ اپنے اللہ ایشور کی کرپا پاسکتے ہیں۔وما علینا الا البلاغ

دیش کے نامور مگر متنازع فیہ ٹی وی اینکر روہت سردانہ

شاہد عادل قاسمی ارریہ

آج ایک موت پر غم کم ہنگامہ زیادہ ہے، ہم مسلمان کے ساتھ ساتھ ایک جمہوری ملک کے ناگرك بھی ہیں، ہمیں اپنوں کے جانے پر جتنا غم ہے، اتنا ہی کسی برادران وطن کے بھی کھوجانے پر حزن و ملال ہوتا ہے،ہم اسلام مذہب کے پیروکار ہیں ،ہمیں کسی کی میت پر اُن کے اچھائیوں کا ہی ذکر کرنے کا حکم ہے،ہمیں برادران وطن کی رحلت پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا بھی حکم ہوا ہے، اس لیے ایک سردانا ہی کیا سینکڑوں ہامان و فرعون چلے گئے ،ہمارے پیشوا اُن کی وفات پر اُن کی برائی یا اُن کی خامیوں کو زیر بحث نہیں لائے،آج روہت سر دانا کی موت پر الگ الگ طرح سے لوگ اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں ,کسی نے اشاروں اشاروں میں اُن کے اندر کی خامیوں کا آپریشن کیا، تو کچھ نے اُن،کی صلاحیت کا بھی اعتراف کیا،ہمیں بتاتے ہوئے فخر ہورہاہے کہ ہم جس دین متین کے متبع ہیں ،وہاں انتقام اور بدلے کی گفتگو ایسے مواقع سے نہیں ہوتے،

ٹھیک ہے سردانہ جی کو جو اچھا لگا کیے، ہمارے ایمان کے مطابق سبھی اعمال کا حساب و کتاب وہاں ہوگا ہی، اس لئے ہمیں ان کے حساب و کتاب کرنے یادیکھنے کا کوئی حق نہیں ہے،16/نومبر 2017کا دن مجھے اچھی طرح یاد ہے، اُمہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں ان کے منہ سے نکلی جوگندگی نکلی تھی، جس سے میرا ایمانی جذبہ آج بھی اتنا ہی غمگین ہے جتنا اس وقت تھا،لیکن ہندہ کو معاف کردینا ،عتبہ کو درگزر کردینا،حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے قاتلوں کو چھوڑ دینے والے واقعات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں ،جمہوری ملک میں مسلم پاک ملک کا خواب دکھانے والا ڈیبیٹ بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے ،لیکن فتح مکھّ کے دن کا اعلان معافی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوا تھا وہ بھی مجھے خوب یاد ہے ،2020میں تبلیغیوں کے تھوک سے کورونا پھیلتا ہے

،تبلیغی لوگ نرسوں سے نازیبا حرکت کرتے ہیں،تبلیغی لوگ وارڈوں میں پیشاب اور گندگی پھیلاتے ہیں مولانا سعد فرار ہوگئے،اربوں کھربوں کی سمپتی ہے،ہمیں سارےالزمات یاد ہیں ،ہم ہندوستانی مسلمان بھولے نہیں ہیں، ہم جہاں اپنی اسلامی تاریخ کو محفوظ رکھتے ہیں، وہیں ملکی نظام پر عمل کرناایمان بھی سمجھتے ہیں ،بلال حبشی کا بدن، مکے کی پتھریلی گرم زمین،حضرت عمر کا غُصہ اور قرآن کا انقلاب مجھے سب یاد ہے، اسلام کو جب بھی روکا اور پابند کیا گیا ہے ،اس وقت اتنا ہی تیزی سے وہ پھیلا اور بڑھا ہے، فرعون کے گھرسے موسی پرورش پاسکتا ہے، تو ہندوستان کی گلیوں سے اسلام کا شیدائی کیوں نہیں ترقی کر سکتا ہے ،روہت سردانه ضرور سنگھرش کرتے کرتے آج نامور ہستی بن گئے تھے،

چینخ وپکار سے شرکائے جلسہ پر ضرور فاتحانہ بیٹنگ کر لیتے تھے،ریڈیو سے زی نیوز ہوتے ہوئے آج* آج تک* کے ضرور تیز طرار اینکر بن گئے تھے ،مگر منصفانہ کردار کے مالک نہیں رہے،حکومت کی مدح سرائی کرتے رہے ،عیوب پر پردہ پوشی کرتے رہے،ناکامی میں کامیابی کا لیبل چپکاتے رہے،فالٹ اور غلط سسٹم کی طرفداری کرتے رہے،حکومت کے ہم شریک اور سہیم بن کر حزب مخآلف کا آپریشن کرتے رہے،دنگل میں مضبوط پہلوانوں کی ریفری کرکے صحافت کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی کافی نقصان پہنچاتے رہے،ہم مانتے ہیں کہ ایک صحافی یا اینکر کسی سے مربوط ہوا کرتا ہے،کسی ہاتھ کا کھلونا بھی ہوجاتا ہے ،ڈمرو ضرور صحافی کے ہاتھوں ہوتا ہے مگربجاتا اور نچاتا پردے کے اوٹ سے کوئی دوسرا ہے،

لیکن ایک باضمیر انسان آخر کب تک یہ سب کچھ کرے گا، سمجھ سکتے ہیں،صحافی دیش کا چوتھا ستون ہوتا ہے،جمہوریت کی بقاء اور تحفظ ہی اُن کا نصب العین ہوتا ہے ،غیر جانبداری اس کی فطرت ہوتی ہے،لوگوں میں پیار ،قومی یکجہتی اورگنگا جمنی تہذیب کی وراثت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے،دیش کا وکاس اور ترقی ہی ان کامزاج ہوتا ہے،ایک سچا صحافی قوم ودھرم سے اوپر کی زندگی جیتا ہے،دیش واشی کے سکھ دکھ کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے,دیش والوں کے لیے اچھی تعلیم بہترصحت اور روزگار و معاش کے لیے حکومتوں سے ٹکراتا رہتا ہے ،

مفید اسکیموں اوریوجناؤں سے عوام کا فائدہ تلاش کرتا رہتا ہے، مگر آج کی صحافت اللہ کی پناہ، کچھ لوگوں نے تو طوائف کہ دیا ہے،
سردانا جی کم عمری ہی میں چلے گئے ہمیں اظہار تعزیت میں کوئی اعتراض نہیں، اس غم کے گھڑی میں ہم ان کے اہل خانہ کے ہم شریک ہیں، لیکن جو اس مزاج کے صحافی ہیں ،وہ ضرور اس سے عبرت لیں،موت برحق ہے، ہم سبھوں کو باری باری جانا ہے ،لیکن ایسی موت نصیب ہو جس پر زمانہ رویے ،جس کے جانے پر ہر آنکھ آنسوبهائے،
روہت جی دیش کے بڑے لوگوں میں سے ہیں، وزیر اعظم سے لیکر کلرک تک کے بہتر تعلق والے ہیں ، ہندوستانی مراکز صحت کا کتنا ہی برا رویہ اور خستہ حال ہو ،مگر ان کو تو شاید کوئی پرابلم نہیں ہوئی ہوگی،ہر سہولت قدموں تلے ہوگی، اگر کچھ نہ ہو تو شاید دعا اور آشروادکی کمی ہو،اس لیے ایسے ذہنیت کے صحافیوں سے کہنا چاہونگا کہ توبہ کیجئے،سیکولر دیش میں سیکولر بنیے،حکومت کی غلط پالیسیوں کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیے،ہندومسلم اختلافات سے پرہیز کیجئے ،دونوں ایک ہی آنگن کے پھول ہیں، اس میں ترشول نہیں بوئیے،نفرت کو مٹائے محبت کو عام کیجئے اور اس گنگا جمنی تہذیب پسند ملک کو ترقی کے آسمان پر لے چلئیے،نہیں تو آپ کے موت پر بھی لوگ ہنگامہ کرینگے اور آنے والی نسل آپ کو تنگ نظر اور کوتاہ فہم کے لقب سے ملقب کریں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں