مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت 206

مذاکراتی پیشکش پرسیاسی اَنا بھاری !

مذاکراتی پیشکش پرسیاسی اَنا بھاری !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ہمارے ہاں ہر الیکشن پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے مبینہ دھاندلی کے الزامات سے جہاں اُن الیکشنوں کے نتائج مشکوک ہو ئے، وہیں ہمارے انتخابی نظام پر بھی کئی ایک سوالات اُٹھتے رہے ہیں،دنیا بھر میں وقت کیساتھ انتخابی اصلاحات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، لیکن پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں انتخابی اصلاحات کے مسئلے کو کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہردور حکومت میںانتخابی نتائج پر الزامات کا چرچا رہا،احتجاج،جلسے ،ریلیاں اور دھرنے بھی ہوتے رہے ،مگر حکومت اور اپوزیشن نے مل بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کرنے کی بجائے اپنی سیاسی اَنا کو مقدم رکھا ہے،تاہم وزیراعظم نے ایک بار پھر اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کیلئے مذاکرات کی دعوت دی ہے ،

ان کے مطابق انتخابی نظام میں دھاندلی ختم کرنے کا واحد طریقہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین ہے، اِس انتخابی نظام پر یا کسی نئے انتخابی ماڈل پر اپوزیشن کو تحفظات ہو سکتے ہیں کہ جنہیں دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہو گی، لیکن اِس بات سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ امر واضح ہے کہ ہر دور اقتدار میں اپوزیشن انتخابی اصلاحات کیلئے سر اپہ احتجاج رہی ہے ،تاہم اس باروزیر اعظم کی جانب سے براہ راست انتخابی اصلاحات پر مشاورت کی پیشکش کو زیر غور لائے بغیراپوزیشن کا مسترد کر دینا درست نہیں ہے،

وزیر اعطم کی ایک سنجیدہ پیشکش کے جواب میں روائتی عدم تعاون کا طرز عمل پتہ دیتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات ذاتی دشمنی کا درجہ اختیار کر چکے ہیں کہ جس میں ریاست اور جمہوریت کا مفاد کوئی حیثیت نہیں رکھتاہے۔ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انتخابی عمل اور ووٹنگ کے طریقہ کار پر اپنا اعتبار کھو تا جارہا ہے، رائج انتخابی نظام الیکشن کمشن چلاتا ہے، لیکن ہر انتخاب متنازع ہونے کے بعد جو خرابیاں سامنے آتی ہیں ، ان میں زیادہ تر کا تعلق بااثر افراد،حکومتی شخصیات اور کچھ طاقتوروں کی مداخلت کاہوتا ہے،ہمارے انتخابی عمل میں دھاندلی‘ مداخلت‘ بدنظمی ووٹ چوری اور ووٹ کی خریدوفروخت کی پوری تاریخ موجود ہے، اس کے باوجود انتخابی عمل کی درستگی سے گریزاں کیا جاتا ہے ،ہمارے ہاںہر انتخاب میں کوئی ایک سیاسی جماعت ضرور جیتتی ہے، لیکن ملک کی تقدیر ہر بار ہار جاتی ہے۔
یہ صرف ایک ضمنی انتخابات کی بات نہیں،یہاںسینٹ کے وسط مدتی انتخابات اور پھر چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران جو کچھ ہوتا رہا ہے ،یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پاکستان کے ہر علاقے اور ہر سطح کے انتخابات کی شفافیت پر بجا طور پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ۔ملک میںجمہوریت کی جڑیں دھاندلی زدہ الیکشن سے نہیں، ووٹروں کی شفاف رائے سے پھلتی پھولتی ہیں، ساری دنیا نئے جدیدطریقوں اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہی ہے کہ جس سے رائے دہی کا عمل شفاف تسلیم کیا جا سکے،ہماری تمام حکومتوں میں اب تک جتنی انتخابی اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں،

ان میں اپوزیشن کی تجاویز کو کوئی خاص جگہ نہیںدی جاتی، وہی اپوزیشن اگلی بار حزب اقتدار بن کر انتخابی اصلاحات نئے سرے سے متعارف کراتی ہے اور کل کی حزب اقتدار کو نظر انداز کر دیتی ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت انتخابی عمل کو آر او کا الیکشن کہہ چکی ہے‘ مسلم لیگ (ن) کو بھی اعتراض ہے،تحریک انصاف بھی شاکی ہے ،جبکہ چھوٹی بڑی دوسری جماعتیں بھی مطمئن نہیں تو اس صورت میں بہتر ہو گا کہ تمام جماعتیں بگاڑ کی اصل وجہ ختم کرنے کے لئے انتخابی اصلاحات پر مشاورتی عمل کا حصہ بنیں،اگر حکومت کی جانب سے مذاکرات کی ایسی پیشکشوں پر سیاسی

انا بھاری رہی تو پھر نہ جمہوری استحکام میسر ہو گا ،نہ غیر منتخب قوتوں کی مداخلت کم ہو سکے گی۔حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جمہوریت کے استحکام کیلئے انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں ،تاہم یہ کسی ایک شخص کی خواہش یا حکم پر نہیں،بلکہ تمام فریقین کی مشاورت، عوام کی رائے کی روشنی اور اتفاق رائے سے ہی ممکن ہوسکتی
ہیں،حکومت نے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو مشاورت کی دعوت دی ہے،عام طور پر مذاکرات کی دعوت اس لیے بھی دی جاتی ہے کہ اس فیصلے کا بوجھ اکیلے اپنے سر نہ لیا جائے ،بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کا فیصلہ ہے،اگر وزیراعظم واقعی سمجھتے ہیں کہ انتخابی نظام کی اصلاح ہونی چاہیے تو صرف اپوزیشن کی دو جماعتوں کو مذاکرات کی پیش کش کرنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دیں، سب کی تجاویز سامنے لائی جائیں،

ان پر طویل بحث کی جائے، سنجیدگی کا پیمانہ یہی ہے کہ صاف نظر آئے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کچھ نہ کچھ چھوڑنے پر تیار ہیں، ملک میں انتخابی اصلاحات کے ساتھ متناسب نمائندگی کے نظام پر بھی مشورے کی اشدضرورت ہے ،حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج تو یہی بتاتے ہیں کہ اکثریت نے جس کے خلاف ووٹ ڈالا وہی کامیاب قرار پایا، لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ نظام ضرور لائیں، لیکن انتخابی طریقہ کار بھی تبدیل کیا جانا چاہئے،اس سے بھی بڑھ کرضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنی نیت کی بھی اصلاح کرے، اگر نیت میں دونوں جانب سے حصول اقتدار ہوگا تو کوئی اصلاح بھی کارآمد نہیں ہو سکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں