’’ بلدیاتی اداروں کی بحالی، کپتان کی جمہوریت کو پھر خطرہ‘‘ 162

’’بلوچستان کا ایک مسیحائی کردار‘‘

’’بلوچستان کا ایک مسیحائی کردار‘‘

تحریر،محمد اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
دنیا میں کسی ایسے معاشرے ،ملک یا قوم نے کبھی ترقی نہیں کی جس کی عوام میں دکھی انسانیت کی خدمت اور آپس میں مل جل کر کام کرنے کا جذبہ نہ ہو، اپنے ملک، شہر ،وعلاقے کے غریب اور متوسط طبقے کا خیال رکھنے والے نہ صرف دنیا میں اعلیٰ مقام پاتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی سنوارلیتے ہیں،دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے اپنی زندگی دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کی ہوئی ہے، ایسے لوگوں کا نام ہمیشہ دنیا کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا،پاکستان سمیت دنیابھر میں اب بھی ایسے لاتعداد لوگ موجود ہیں جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہیں اور دکھی انسانیت کی خدمت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے،انہی میں پاکستان کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے چیئرمین نعمت اللہ ظہیر (تمغہ امتیاز)بھی ہیں۔جن کے بارے میں کہوں گا

کہ وہ ایک عہد ساز متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں جو پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں سماجی خدمت کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں، نعمت اﷲ خان ظہیر 1990ء سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ میں دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، غریب، نادار، بے یارو مددگار، مایوس، بیوائوں اور یتیموں کی خدمت کرنا موصوف کا مشن ہے۔ وہ ہر فن مولا شخصیت ہیں، اپنے عزم، جذبہ، ایمانداری اور اوصاف کی وجہ سے انہوں نے اپنا لوہا علاقائی، صوبائی اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر منوایا۔ اب موصوف خدمت خلق کا نیٹ ورک پنجاب سمیت سندھ، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان، بشمول آزاد کشمیر میں پھیلانا چاہتے ہیں، جس کیلئے پیپر ورک مکمل کر کے بلوچستان کے بعد پنجاب میں اس کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
نعمت اﷲ خان ظہیر نے اپنی زندگی بلوچستان کے ایسے باسیوں،جومعاشرتی بے راہ روی کے بڑھتے رجحان ، بے روزگاری اور غربت افلاس کی وجہ سے تنگ زندگی گزار رہے ہیں،کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کر رکھی ہے،خدمت خلق فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے نعمت اللہ ظہیر بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں نسل نو کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے،عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی،کیلئے دن رات کوشاں ہیں ،یہی نہیں بلوچستان سے بھیک مانگنے والوں میں کمی کرکے ایسے افراد کو معاشرے کا کار آمد شہری بنانا بھی موصوف اپنا فرض سمجھتے ہیں،یہی وجہ ہے

کہ نعمت اللہ ظہیر کو بلوچستان کے عوام کی اکثریت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے اور اپنا مسیحا تصور کرتے ہیں،آندھی ہویاطوفان،سیلاب زدگان ہوں یا زلزلہ متاثرین، خدمت خلق فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے نعمت اللہ ظہیر اور ان کی ٹیم ہر آفت زدگان کی مدد میں پیش پیش نظر آتے ہیں، 30سالہ عوامی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان نے نعمت اللہ ظہیر کو تمغہ امتیاز سے نوازا،اب سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نعمت اللہ ظہیر کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ذیلی شاخ(یو ایس)نے انٹرنیشنل ایوارڈ دینے کا اعلان کیاہے،جو 26جون 2021 کو امریکہ میں ایک تقریب میں دیا جائے گا،یہ ایوارڈز دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار نمایاں شخصیات کو دیئے جاتے ہیں،

جو دنیا میں مختلف موضوعات پر عوام کی خدمت کرتے ہیں،نعمت اللہ خان ظہیر کو لندن اور پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرہ افراد کی بحالی کیلئے کام کرنے پر یہ ایوارڈ دیاجارہاہے، نعمت اﷲ ظہیر ایسا شخص ہے جنہیں ہمیشہ لگاتار شدید اختلافات کا سامنا رہا۔ مگر انہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری۔ وہ غریب طلباء کو اس لیے سکالر شپ فراہم کرتا آ رہا ہے تاکہ معاشرے سے تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہو، وہ صحت کے شعبہ میں اپنی خدمات اس لئے سر انجام دے رہا ہے تا کہ غریب کا علاج معالجہ ممکن ہو سکے۔ میں نعمت اﷲ ظہیر کو معاشرے کا بہترین فرد ہونے کا لقب دوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ موصوف نے زندگی کے ہر شعبہ میں انسانیت کی خدمت کر کے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان کی محنت سے بھر پور زندگی کو تسلیم کرتے ہوئے

قومی و بین الاقوامی اداروں نے انہیں ایوارڈز سے نوازا۔ جن میں قومی یوتھ ایوارڈ، آکسی ویژن ایوارڈ، بولان ایوارڈ، سہ فریقی ملکی ایوارڈ، اتحاد ایوارڈ، سٹی ناظم کوئٹہ ایوارڈ، سردار یار محمد جمالی ایوارڈ، بلوچستان منی اولمپکس ایسوسی ایشن ایوارڈ وغیرہ جیسے ایوارڈوں اور اعزازات کے ساتھ ساتھ ایران، یوکرائن، لندن، انڈیا، جرمنی اور نیپال کے ساتھ دیگر ممالک نے بھی اپنے قومی ایوارڈوں سے انہیں نوازا، جبکہ نعمت اللہ خان ظہیر کو وومن رائٹس انٹرنیشنل مالدیپ کی جانب سے بھی ایوارڈ دیا گیا، وہ اس سے قبل صدارتی ایوارڈ،قومی یوتھ ایوارڈ سمیت درجنوں دیگر ایوارڈز بھی حاصل کرچکے ہیں،

اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے انہیں ایوارڈ ملے گا جو کہ پاکستان کیلئے اعزاز ہے، یہ نعمت اﷲ ظہیر کی کاوشوں اور دکھی انسانیت کی خدمت کا نتیجہ تھا کہ انہیں پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنے ایوارڈز سے نوازا۔ میں بطور کالم نگار، لکھاری اور چھوٹا سا تحقیق کا طالبعلم ہونے کے ناطے ان کی خدمات کو لکھتے ہوئے شاید میرے قلم کی سیاہی ختم ہو جائے۔ شاید میرا ذہنی پیمانہ اس قابل نہ ہو کہ میں نعمت اﷲ ظہیر کی خدمات کا بوجھ سہہ سکوں مگر ان کی خدمات کا ایک چھوٹا سا لفظ اپنے قارئین تک پہنچا سکوں تو یہ میرے لیے فخر اور شرف دونوں ہونگے۔
خدمت خلق فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے چیئرمین نعمت اللہ خان ظہیر کہتے ہیں کہ ہمیشہ وہی قومیں دنیا میں بلند مقام حاصل کرتی ہیں جو ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں اور اپنے مسائل کا حل اپنے وسائل سے کرتی ہیں اور دکھی و بے سہارا لوگوں کی امداد کرکے معاشرے میں تبدیلی لاتی ہیں اکیسویں صدی جہاں صنعتی انقلاب کی صدی کہلاتی ہے وہیں سماجی خدمات بھی اس صدی کی انسانی ترجیحات میں شامل ہیں،پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسان دوستی تا حال زندہ ہے، یہاں فلاحی خدمات،سماجی بہبود اور دوسروں کی اخلاقی و مالی معاونت کا جذبہ ابھی ختم نہیں ہوا ،

خدمت خلق فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستانی قوم کو جہالت،بیماری، غربت، بیروزگاری،محرومی اور قدرتی آفات اور بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے عملی جد جہدو خدمت کر رہی ہے، فاؤنڈیشن بلا امتیاز رنگ ونسل،جنس ومذہب خدمت انسانیت کے لیے کوشاں ہے اورامداد باہمی کے تصور کے تحت معاشرے کے خوشحال طبقے کے ساتھ ملکر متاثرہ و بدحالی میں مبتلا طبقے کے افراد میں تعاون اخوت عزت واحترام اور انہیں خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اعانت فراہم کرتی ہے ، مظلوموں، یتیموں، مساکین، غریب اور متوسط طبقے کی خدمت کرتی ہے، نعمت اللہ ظہیر کا مزید کہنا ہے

کہ سماجی خدمات کے ذریعے جہاں فلا ح انسانیت کے لئے کوشاں ہوا جا سکتا ہے وہیں معاشرے میں طبقاتی تعصب کے خاتمے، انسانی حقوق کی پاسداری اور دیگر معاملات میں بخوبی کردارادا کیا جا سکتا ہے۔چاہے وہ مشاورت ہو یا کونسلنگ،دنیائے عالم میں سوشل ورکرز پالیسی سازی، رائے سازی اور ایڈ وکیسی جیسے مسائل سے بھی نبرد آزما نظر آتے ہیں، سماجی خدمت کے شعبہ میں سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان حالات میں بھی لوگ اپنے ذاتی ادارے اور تحریکیں چلانے پر پھر بھی مجبورمگر جذبہ انسانیت سے سرشار ہیں۔سر کاری سر پرستی نہ ہونے کی وجہ سے سماجی کارکنوں میں تربیت کا فقدان محسوس کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے

کہ خدمات کا یہ شعبہ با قاعدہ منظم نہیں۔ تا ہم میں یہ ضرور کہوں گی کہ اگر پاکستان میں سماجی کارکن فعال ہوجائیں تو بلوچستان سمیت ملک بھر میں متوسط طبقے کو ہربنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی ہو سکتی ہے، پاکستان میں سماجی خدمات کو جہاں مثبت سوچ اور اعلی اقدار سے تعبیر کیا جا تا ہے وہیں اس شعبہ کو تنقید کا بھی سامنا ہے۔ اس کی وجہ مختلف محرکات ہو سکتے ہیں، جن میں خدمت خلق میں پیش پیش رہنے والے افراد کے پسِ پردہ ذاتی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں مثلاً ذاتی نمود و نمائش، دکھاوا اور سستی شہرت کے حصول کیلئے بھی سماجی بہبود کا شعبہ موزوں تصور کیا جاتا ہے لیکن وہ یہ سب کچھ بالائے طاق رکھ کر اللہ کی خوشنودی کیلئے کام کر رہے ہیں، پاکستان کے ہر فرد کو دکھی انسانیت کیلئے کام کرنا چاہئے، اسی میں قوم و ملک کی ترقی کا راز ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں